یہ باتیں رہنے دو…مظہر بر لاس
ابھی دل کو تسلی نہیں ہوئی، ابھی بہت سے ارمان باقی ہیں۔ مجھے ان ارمانوں پر ترس آ رہا ہے جو کامران ٹیسوری کے دل میں ہیں، آج بھی وہ ایک انٹرویو میں فرما رہے تھے کہ ’’کراچی میں اب بھی سب سے زیادہ ووٹ بینک ڈاکٹر فاروق ستار کا ہے‘‘ مجھے کامران ٹیسوری پر حیرت ہے کہ وہ فاروق ستار کی رہی سہی عزت کے بھی پیچھے پڑے ہوئے ہیں ، پہلے بھی فاروق ستار نے سونے کے تاجر کامران ٹیسوری کے پیچھے لگ کر ایم کیو ایم کی سیاست میں کمایا ہوا سارا نام گنوایا۔ وہ کامران ٹیسوری کی محبت میں بہادر آباد والوں کو ناراض کر بیٹھے۔ حیرت یہ ہے کہ محبت کا یہ جادو ابھی تک چل رہا ہے ۔ مزید حیرت اس بات پر ہے کہ یہ جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ کامران ٹیسوری ایک زمانے میں فنکشنل لیگ میں تھے۔ وہاں ان کا جادو نہیں چل سکا تھا کیونکہ پیر پگاڑا کا اپنا دم درود ہی بہت ہے۔ فنکشنل لیگ میں ناکامی کا منہ دیکھ کر کامران ٹیسوری نے ایم کیو ایم کا رخ کیا، گھوڑوں کے شوقین کا مران ٹیسوری کو پتہ نہیں یہ احساس کیوں نہ ہو سکا کہ سیاست میں ہر گھوڑا دوڑ کے قابل نہیں ہوتا بلکہ بعض گھوڑے تو اتنا پیچھے رہ جاتے ہیں کہ اکلاپے کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اتوار کو میاں شہباز شریف کراچی میں تھے، انہوں نے کراچی کو نیو یارک بنانے کی بات کی ، ان باتوں میں کیا رکھا ہے، یہ باتیں پرانی ہو
چکی ہیں ۔ ان باتوں پر بات بعد میں کریں گے ، پہلے ذرا سگریٹ نوشوں کو کچھ معلومات ہی دے دیں تاکہ ان کا تو بھلا ہو سکے ۔ ویسے تو یہ بھلا ملک کا بھی ہے اس سے ملک میں ہونے والی ٹیکس چوری بھی نہیں ہو گی اور ہمارے سگریٹ نوش دوست جعلی سگریٹ سے بھی بچ جائیں گے۔ آپ کو تو پتہ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت کو بڑا نقصان ٹیکس چوری کی وجہ سے ہو رہا ہے ۔ صرف سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری کی وجہ سے ملکی خزانے کو سالانہ 35سے40ارب کا نقصان ہو رہا ہے اس وقت ملک میں سگریٹ کے دو سو سے زائد برانڈ ایسے ہیں جن پر ٹیکس ادا نہیں ہو رہا۔ یہ برانڈز عام طور پر آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں تیار ہوتے ہیں ان علاقوں میں جو برانڈآپ کو ملیں گے، ان کا باقی ملک میں ملنا محال ہے ۔ ایف بی آر کے مطابق سگریٹ کے پیکٹ پر کم از کم ٹیکس 48روپے ہے لیکن دس روپے سے لیکر تیس روپے تک سگریٹ کا پیکٹ مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتا ہے ۔ اس مرحلے پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ایف بی آر کی طرف سے ٹیکس 48روپے فی پیکٹ ہے تو پھر یہ کونسی کمپنیاں ہیں جو ٹیکس سے بھی کم قیمت پر پورا پیکٹ گاہک کے ہاتھ میں تھما دیتی ہیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ دس روپے سے تیس روپے میں سگریٹ کا پیکٹ دینے والی کمپنیاں ٹیکس ادا نہیں کر رہیں۔ پچھلے سال حکومت نے سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوری کے خاتمے کے لئے انفورسمنٹ نیٹ ورک کے نام سے ادارہ تشکیل دیا تھا۔ اس نے ایک ارب اور ساٹھ کروڑ کے سگریٹ ضبط کیے تھے ۔ پچھلے دو سال میں اربوں کے سگریٹ محض اس لئے ضبط ہو چکے ہیں کہ ان پر ٹیکس ادا نہیں کیا گیا تھا ۔ ایف بی آر کے قائم کردہ انفورسمنٹ نیٹ ورک نے سگریٹ انڈسٹری میں ٹیکس چوروں کو بہت پریشان کر رکھا ہے۔ اس لئے اب وہ اپنی فیکٹریاں خیبر پختونخوا سے آزاد کشمیر منتقل کر رہے ہیں تاکہ انفورسمنٹ نیٹ ورک کی کارروائیوں سے بچا جا سکے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ٹیکس کے ادارے سیاسی دبائو کو نظر انداز کر دیں ، اپنے پیارے ملک کی خاطر ٹیکس وصول کریں۔
یہ چوریاں پتہ نہیں کہاں کہاں ہوتی ہیں ۔ پنجاب میں کئی جگہوں پر ٹیکس چوری کے علاوہ بجلی اور گیس بھی چوری ہوتی ہے ، چوری سندھ اور بلوچستان میں بھی ہو رہی ہے۔ آپ اس چوری کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک حکومت نے میرے ایک دوست کو پیشکش کی کہ وہ کراچی میں ایک کلیکٹر لگوا لے اور اس سے پچاس کروڑ لینا تو بڑی آسانی کی بات ہو گی۔ میرا دوست انکاری ہوا اور کہنے لگا کہ’’ نہیں جناب مجھے میرا خدا رزق حلال سے نوازے‘‘
خواتین و حضرات !کیا زمانہ آ گیا ہے ، لوگ حرام کو حلال سمجھ کر کھا رہے ہیں ، لوگوں نے رشوت کو کمیشن کا نام دے رکھا ہے، لوگ بدیانتی کو امانتداری کہہ رہے ہیں۔ ہر طرف دولت کے حصول کی دوڑ لگی ہوئی ہے۔ بدقسمتی سے یہ دوڑ صحافیوں اور دانشوروں میں بھی ہے، انہوں نے بھی دولت کے بت کی پوجا شروع کر رکھی ہے۔ ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور یوں بولا’’ہر شام تمہارے ٹی وی اینکرز کو دیکھتا ہوں ، تجزیہ کاروں کو بھی دیکھتا ہوں، سب نے ایسے انگریزی لباس پہنا ہوتا ہے جیسے ان سب کی پیدائش یورپ میں ہوئی ہو،یہ لوگ جو اپنا لباس نہیں پہنتے یہ خاک قوم کی رہنمائی کریں گے،انہیں اپنی دھرتی کے لباس سے محبت نہیں، یہ خاک دھرتی سے پیار کریں گے‘‘ یہاں کے سیاسی رہنما ، بھی عجیب ہیں کبھی لاہور کو پیرس بنا رہے ہوتے ہیں کبھی ملتان کو لندن اور اب خیر سے یہ فرمایا جا رہا ہے کہ کراچی کو نیو یارک بنا دیں گے۔ بابا یہ باتیں رہنے دو ، آپ ہمیں ہمارا اصلی لاہور لوٹا دیں، آپ ہمارا اصل ملتان دے دیں اور کراچی کو اصل کراچی بنا دیں، آپ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ ہم کراچی کو ایسا بنائیں گے کہ نیو یارک والے دیکھتے رہ جائیں گے مگر افسوس کہ تمہیں ایسی ہمت ہی خدا نے عطا نہیں کی، تم لوگ خاک اس دیس کی خدمت کرو گے، نہ تمہارا لباس اپنا، اپنی زبان تم نہیں بولتےہو، تمہارے لئے اپنے شہروں سے بڑھ کر غیر ملکی شہروں کے نمونے ہیں۔ کبھی اپنے دانشوروں سے پوچھنا کہ یہ جو تم انگریزی لباس پہنتے ہو، کیا یہ تمہارے اجداد کا لباس ہے ؟بھئی رہنے دیں، یہ باتیں رہنے دیں تمہارا اصل چہرہ کچھ اور تھا تم پیش کچھ اور کر رہے ہو، نہ تمہیں اپنی زبان پر ناز، نہ تمہیں اپنے لباس پر فخر اور نہ ہی تمہیں اپنے شہروں پررشک، کیا یہ وطن سے محبت ہے؟‘‘
آدمی چپ ہوا تو مجھے محسن نقوی کے اشعار یاد آنے لگے کہ
انا پر چوٹ پڑے بھی تو کون دیکھتا ہے
دھواں سا دل سے اٹھے بھی تو کون دیکھتا ہے
اجاڑ گھر کے کسی بے صدا دریچے میں
کوئی چراغ جلے بھی تو کون دیکھتا ہے