دو تہائی سے زیادہ اکثریت کے ساتھ منتخب ہونے والے ہمارے وزیراعظم کو جس طرح سینکڑوں حاضرین اور میڈیا کے سامنے‘ اپنی بے بسی اور مجبوری کا اعتراف کرنا پڑا‘ اسے دیکھنے کے بعد‘ ایک بات تو ثابت ہو گئی کہ پاکستان کا نظامِ حکومت بہت ہی منصفانہ اور شریفانہ ہے۔ ہمارے وزیراعظم طاقتورا ور خود مختاربیوروکریسی کے سامنے‘ اتنے بے بس ہیں کہ وہ اپنے دولت مند ساتھیوں کی ذرا سی مدد بھی نہیں کر سکتے۔ ہمارے ریت رواج کے مطابق‘ اقتدار کی کرسی پر بیٹھا ہوا کوئی بھی شخص‘ بیوروکریٹس کو اپنے دفتر طلب کر کے‘اسے گھٹنوں کے بل جھکا کے جو حکم چاہے‘ دے سکتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ ہمارے وزیراعظم پر کیا گزری؟ وہ پاکستان کے سب سے زیادہ طاقتورا ور با اختیار عہدے پر فائز ہیں۔ ملک کے وزیراعظم ہیں۔کابینہ بنا اور توڑ سکتے ہیں۔ ہر درجے اور ہر طرح کا افسرلگانے اور ہٹانے کا اختیار‘ا ن کے اشارئہ ابرو کا محتاج ہے۔ ان کی پارٹی کے کارکن جب چاہیں‘ سپریم کورٹ میں بیٹھے ججوں کو ان کی کرسیوں اور کمروں سے بھگا سکتے ہیں۔ عام انتخابات قومی اسمبلی کے ہوں‘ صوبائی اسمبلیوں کے یا بلدیاتی‘ ان کی پارٹی جب چاہے اور جیسے چاہے‘ بھاری اکثریت سے جیت جاتی ہے۔ ایک عام شہری سے پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ ملک میں کوئی شخص اتنا طاقتور ہے کہ ہمارے وزیراعظم کے ‘کسی بھی حکم کی تعمیل سے انکار کر سکے؟ کوئی پاکستانی یہ انہونی بات نہیں مان سکتا۔ ہم یہ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ وزیراعظم کا حکم ماننے سے ‘کوئی بھی انکار کرنے کی جرأت رکھتا ہو۔ کوئی دیوانہ یا سر پھرا تو وزیراعظم کی بات ماننے سے انکار کر سکتا ہے، ہوش و حواس میں رہتے ہوئے کسی شخص میں یہ مجال اور تاب نہیں کہ وہ‘ وزیراعظم کے کسی بھی حکم کی تعمیل سے گریز کرے۔
پھر ہمارے ملک کے چیئرمین نیب یا ان کے ماتحت افسران میں یہ جرأت کہاں سے آگئی؟ کہ وزیراعظم اور ان کے حلقہء احباب سے تعلق رکھنے والے امراء یعنی( شریف لوگوں) کو نیب کے ملازمین تنگ کرتے ہوں اور اتنا تنگ کرتے ہوں کہ ہمارے وزیراعظم کو میڈیا کے سامنے بیٹھ کر‘ اپنی بے بسی کا اعتراف کرنا پڑے۔ ان کے سامنے بیٹھے ہوئے سینکڑوں معززین شہر ‘اس بات کے گواہ ہوں کہ وزیراعظم نے ارب اور کھرب پتی لوگوں کی بے بسی کا سر عام اعتراف کیا ہو اور عوام کے سامنے فریاد کی ہو کہ نیب کے افسران‘ ملک کے امیر ترین لوگوں کو طلب کر کے‘ پریشان کرتے ہیں‘ ان کے گھروں میں گھس جاتے ہیں۔نیب کے ستائے ہوئے لوگوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن جو نام میڈیا ذرائع سے ہمارے سامنے آئے ہیں‘ انہیں پڑھ کر تو یقین ہی نہیں آتا کہ نیب کا افسر انہیں طلب کرنے کی جرأت کر سکتا ہے۔ان کے گھروں میں گھس کر انہیں پریشان کر سکتا ہے۔اس کے برعکس ضرور ہو سکتا ہے ۔جن کھرب پتی شرفاء کے اسمائے گرامی شائع ہوئے ہیں‘ کیا کوئی نیب کاافسر ان کے محلات کے دروازوں تک پہنچنے کی جرأت کر سکتا ہے؟کون سوچ سکتا ہے کہ نیب کا ایک ادنیٰ ملازم‘ میاں منشا کے دولت خانے تک پہنچنے کا حوصلہ کر سکتا ہو؟ وہ کون سا سرکاری افسر ہے‘ جسے میاں منشا طلب کریں اور اس کی کیا مجال کہ وہ حاضری دینے سے گریز کاحوصلہ رکھتا ہو ؟ یوں لگتا ہے کہ میاں صاحب ‘ قوم کے سامنے اپنی عاجزی اور انکساری کا کوئی نیا نمونہ پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میاں صاحب کے ذہن میں فوری انتخابات کی کوئی تجویز آگئی ہو؟
حال ہی میں انہوں نے دو انتخابی معرکے سر کر کے‘ جو حیرت انگیز کامیابی دیکھی ہے، اس کی وجہ سے ان کے ذہن میں فوری اور ہنگامی انتخابات کی تجویز آگئی ہو۔ پاکستان کا منتخب وزیراعظم‘ یہ اختیار رکھتا ہے کہ وہ جب چاہے‘ فوراً عام انتخابات کا اعلان کر کے‘اپنی اورجماعت کی مقبولیت کا ثبوت مہیا کر دے ۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں میاں صاحب کی پارٹی نے فتح کے جتنے جھنڈے گاڑے ہیں‘ اس کی مثال ہر سیاست دان پیش نہیں کر سکتا۔ ایسی کامیابی مدتوں سے برسراقتدار لیڈر کو حاصل ہو سکتی ہے‘ جس نے اقتدار میں رہ کر‘ اپنا سکہ جمایا ہو۔ ساری بیوروکریسی اس کی اطاعت گزار ہو۔ تمام روایتی انتخابی لیڈر اپنے مسلح لائو لشکر کے ساتھ‘ پارٹی ٹکٹ لینے کے لئے سر جھکائے کھڑے ہوں۔ نیب کے افسروں نے”مظلوم‘‘ سرمایہ داروں کے ساتھ جو سلوک کیا اور جس کی ہمارے ملک کے وزیراعظم کو برملا شکایت کرنا پڑی‘ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔ میاں صاحب میں خوش اخلاقی اور انکسار تو بہت پایا جاتا ہے لیکن سیاست کے میدان میں وہ کبھی کمزور پوزیشن میں نہیں آتے۔ ہمیشہ طاقت اور ڈنڈے کے زور پر انتخابی میدان میں اترتے ہیں۔ا ن کے حامی اپنے مخالفین کو زورِ بازو سے جھکنے یا میدان چھوڑ کر بھاگنے پر مجبور کرتے ہیں اور یہ تو میاں صاحب کے لئے قابل برداشت ہی نہیں کہ کوئی انہیں مقابلے کا چیلنج دے کر‘ ان کے سامنے انتخابی میدان میں اترے اور پھر اپنی ہڈی پسلی اور عزت بچانے میں
کامیاب ہو جائے۔طاقت کے نشے میں سرشار‘ میاں صاحب جیسا سیاست دان ‘ ادنیٰ سرکاری ملازموں کی سرکشی کیسے برداشت کر سکتا ہے؟جب وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرتے ہیں‘ تو نتائج آنے سے پہلے ڈنکے کی چوٹ پر‘ اپنی کامیابی کا دعویٰ کر دیتے ہیں اور ان کا یہ دعویٰ‘ حقیقت میں بدل جاتا ہے۔
پاکستانی عوام نے صرف دو مرتبہ انتخابات میںجوق در جوق ووٹ ڈالے ہیں۔ میں نے اپنی زندگی میں صرف یہی دو انتخابات ایسے دیکھے ہیں ‘جن میں غیر روایتی ووٹر ‘اہل خاندان سمیت گھروں سے نکلے ہوں تاکہ اپنی پسند کے امیدواروں کو ووٹ دے سکیں۔ موجودہ پاکستان میں ایسا ایک دفعہ1970ء اور پھر2013ء کے عا م انتخابات میں ہوا۔70ء میں عوام‘ بھٹو صاحب کے حق میں ووٹ ڈالنے نکلے تھے اور گزشتہ انتخابات میں عمران خان اور ان کے حامیوں کو۔70ء میں غریب عوام طبقاتی کشمکش کے زیر اثر ووٹ ڈالنے نکلے تھے۔ بھٹو صاحب نے روایتی امیدواروں کو ٹکٹ دے کر امیدان میں اتارا تھا۔ان میں جو زیادہ تجربہ کار تھے وہ اپنے ووٹ ‘ڈبوں میں پہنچانے کا معرکہ مار گئے مگر جو کمزور تھے‘ وہ روایتی اور آزمودہ امیدواروں کا مقابلہ نہ کر سکے۔اس کے بعد‘ ملک کے حالات میں ایسی ابتری آئی کہ چنی چنائی اسمبلیاں دھری رہ گئیں۔جس کو جتنا کچھ مل گیا‘ اس نے اسی پرا کتفا کیا۔ شیخ مجیب اپنی کامیابی پر نازاں تھے اور بھٹو صاحب‘ مغربی پاکستان میںجو کچھ ہاتھ آیا‘ اسی کے بل بوتے پر اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ اس کے بعد روایتی پارٹیوں اور امیدواروں نے اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوئے بھٹو صاحب کو‘ کامیابی کے باوجود ناکام کر دیا اور فوج کی مدد سے انہیں اقتدار سے باہر کر کے‘ پھانسی لگوا دی، لیکن میاں نوازشریف محلاتی بازیاں کھیلنے کے ماہر ہیں۔ وہ سرکاری افسروں کے سامنے عاجز اور کمزور بن کرآتے ہیں اور عوام کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے‘ا پنے حامیوں اور ساتھیوں کو کمزور اور خود کو بے بس ظاہر کرتے ہیں۔ یہ محض ایک ماہر کھلاڑی کی چال ہے۔انہوں نے اپنے سرمایہ دار حامیوں کو نیب افسروں کے سامنے کمزور ظاہر کر کے‘ ہمدردیاں تو بٹور لی ہیں لیکن ان افسروں کی اب جو درگت بنے گی‘ اسے بھی دنیا دیکھے گی۔جس جس افسر نے‘ جس جس دولت مند کو تکلیف دی ہے‘ وہ اسے منافع کے ساتھ واپس لے گا۔ اہل زر‘ نفع اور نقصان کا کھیل کھیلنا اچھی طرح جانتے ہیں۔ وہ ملک کے طاقتور ترین وزیراعظم کی گواہی لے کر بطور مظلوم‘ میڈیا کے سامنے آئے ہیں تو یہ بھی بازار میں نرخوں کے اتار چڑھائو کے کھیل کا ایک حصہ ہے۔یہ وہ کھیل ہے‘ جس میں ماہر سیاست دان ‘ عوام سے نہیں ہارتے۔
یہ بازی زر کی بازی ہے
ہارے بھی تو بازی مات نہیں