ہماری فوج نے اپنے بڑے چھوٹے متعدد جرنیلوں کرنیلوں کو کرپشن کے الزام اور ثبوت میں برطرف کر دیا ہے۔ فوج میں اس قدر برسرعام اور کھلی تطہیر اور صفائی کی خواہش ہر پاکستانی کے دل میں تھی مگر صرف ایک خواہش اس پر عمل کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اب تک اس ملک میں فوج ہی ایسی سخت کارروائیاں کرتی رہی ہے لیکن خود فوج کی طرف کوئی انگلی اٹھانے کی جرات بھی نہیں کر سکتا تھا۔
فوج خود جو چاہے کر دے سب جائز تھا اور فوج کا یہ حق اور اختیار سب کو قبول تھا۔ اب جب خود فوج نے اپنے بڑوں کے خلاف کارروائی کر دی ہے تو پوری قوم اپنی فوج پر نازاں ہے۔ البتہ فوج نے اپنے کرپٹ افسروں سے یہ کہہ کر کہ وہ رشوت کی رقم بھی واپس کر دیں بڑی زیادتی کی ہے۔ فوج نے اپنے ساتھیوں کی کرپشن کو بدمزہ کر دیا ہے بلکہ خطرہ ہے کہ اب فوج میں کرپشن نہیں کی جائے گی جس مال غنیمت کو واپس کرنا ہو اس کے لیے کون لڑتا ہے اور جان کا خطرہ مول لیتا ہے۔
ابتدائے اسلام میں کسی جنگ سے جمع ہونے والے مال کو غنیمت کہا جاتا تھا اور اس مال غنیمت کو سپاہ میں تقسیم کر دیا جاتا تھا اور تقسیم بھی کوئی بڑا اور غیر متنازع شخص کرتا تھا۔ ہم مسلمانوں کا یہ وہ دور تھا جب غیر ہمارے انصاف اور دیانت کی قسمیں کھایا کرتے تھے۔ ہماری فوج کے سپہ سالار جنرل اور ایک نشان حیدر کے خوش قسمت بھائی نے ہماری فوجی تاریخ میں پہلی بار ہماری تاریخ دہرائی ہے بلکہ حالات کو سامنے رکھیں تو پہلی بار یہ جرات کی ہے کہ قوم اور ہماری سپہ کو یاد دلایا ہے کہ ہم کن اوصاف کے مالک تھے اور ماشاء اللہ اب بھی ہیں اور یہ سب ثبوت کے ساتھ قوم بلکہ دنیا کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ کرپشن جہاں سے اور جیسے بھی آگئی لیکن پاکستان میں ہماری فوج نے اس کا جس طرح استقبال کیا ہے وہ کرپشن کی تاریخ میں یاد رہے گا۔
فوج سول کے برعکس ایک سخت مزاج اور ڈسپلن کی پابند فورس ہوتی ہے اور اس پر کرپشن جیسے سخت ترین الزام کے تحت کارروائی کوئی معمولی بات نہیں۔ یہ فوج کی عزت پر ہاتھ ڈالنا ہوتا ہے لیکن فوج نے کرپشن کی لعنت کو بہت زیادہ اہم سمجھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس نے اپنی ذات اور ادارے کو بھی اس گناہ پر معاف نہیں کیا۔ فوج نے تو ایک منفرد مثال قائم کر دی۔ عام خیال یہ تھا کہ فوج جو کارروائی بھی کرے گی وہ اپنے ادارے کے اندر ہی محدود رہے گی البتہ سویلین حکومت کھل کر اپنے کرپٹ لوگوں کو پکڑے گی اور ان کے خلاف سخت کارروائی کرے گی لیکن فوج بازی لے گئی اور اس نے ثابت کر دیا کہ وہ ایک منضبط اور ڈسپلن کی پابند فورس ہے اور اپنے گھر کو صاف رکھنا چاہتی ہے۔
اگر کچھ ’پانامے‘ اس کی صفوں میں ہیں تو وہ انھیں برسرعام رسوا کرے گی اور اس نے ایسا کیا بھی۔ پاکستانی اپنی فوج سے کوئی گلہ نہیں رکھتے لیکن انھیں اپنی سول حکومت سے گلہ ہے اور یہ گلہ ابھی تک دور نہیں ہوا جب کہ فوجی کارروائی پر ہم سب لکھ رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں لیکن ہماری سول حکومت نے ہماری خوشی آدھی کر دی ہے بلکہ ہمیں شرمسار کر دیا ہے۔ اگرچہ فوجی بھی ہمارے اپنے ہیں اور ہم میں سے ہیں لیکن ہم دنیاداری کے معاملات میں انھیں سویلین کے مقابلے میں اناڑی سمجھتے ہیں مگر معلوم ہوا کہ اصل سوال نیت اور عمل کا ہے جس میں فوجی جیت گئے لیکن ہم ان کی جیت کو ان کے مقابلے میں کوئی کارروائی کر کے اسے اپنے برابر کر سکتے ہیں۔ اور خیال ہے کہ ہمارے افسران بالا اس مسئلے پر غور کر رہے ہوں گے۔
سویلین کا صفایا میں نے ایک بار جنرل یحییٰ کی حکومت میں دیکھا تھا جب کوئی تین سو سے زیادہ اعلیٰ افسروں کی اچانک چھٹی کر دی گئی اور اس طرح ہماری تاریخ کا ایک بڑا واقعہ ہو گیا۔ اس واقعہ پر مجھ پر خصوصی اثر ہوا۔ ان دنوں ایئر مارشل محمد اصغر خان سیاست سے کنارہ کش ہو کر ایبٹ آباد میں اپنے گھر میں مقیم ہو گئے تھے اور وہ کسی کو بھی اخباری انٹرویو دینے پر تیار نہیں تھے۔ میرے ایڈیٹر نے ایئرمارشل کا یہ اعلان میرے سامنے رکھا اور خاص نظروں سے مجھے دیکھا میں اسی شام ایبٹ آباد روانہ ہو گیا وہاں کے ہوٹل ڈی پیلس میں قیام کیا اور ایئرمارشل صاحب کا پتہ ڈھونڈنے کی کوشش کی اور خوش قسمتی سے جناب نسیم حجازی جو ایبٹ آباد میں پکے مقیم ہو گئے تھے مجھے مل گئے اور میرے سارے مسئلے حل ہو گئے۔ دوسری صبح میں نسیم صاحب کے ہمراہ ایئر مارشل صاحب کے پر فضا اور خوشنما گھر کے سامنے کھڑا تھا۔
اس طرح لاہور سے دور اچانک ایبٹ آباد میں پہنچ جانے سے وہ بھی کچھ متاثر ہوئے اور میرے علاوہ نسیم صاحب سے بھی ان کا پرانا رابطہ تھا۔ ایئر مارشل صاحب نے میری خوب خاطر تواضح کی اور انٹرویو نہ دینے کی قسم بھی توڑ دی۔ میں نے انٹرویو کیا جو اس وقت ایک بڑی خبر تھی اور جلد از جلد لاہور پہنچ گیا مگر اسی دن یحییٰ خان کی طرف سے اتنے سارے اعلیٰ سول افسروں کی برطرفی بڑی خبر تھی جس کے مقابلے میں میری انٹرویو والی خبر دب گئی۔ اگرچہ مجھے دفتر کی طرف سے مکمل شاباش ملی لیکن میری اتنی بڑی ایکسکلوسو خبر مر گئی اور فوج جیت گئی جیسے وہ اب کرپشن کے احتساب کے معاملے میں جیت گئی ہے۔