یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے…حسن نثار
پہلی بات یہ کہ آج کے کالم کا عنوان شاید ساحرلدھیانوی کا مصرعہ ہے، دوسری بات اگر غلط ہو تو تصیح فرمائیے کہ بچپن میں کہیں پڑھا تھا یہ لفظ دنیا، دنایت سے مشتق ہے جس کے معنی ہی ذلت و کمینگی ہیں۔شاید اسی لئے جو لوگ دنیا داری کی حدود سے تجاوز کرتے ہیں انہیں جینوئن عزت نصیب نہیں ہوتی خواہ وہ شہرت، طاقت، دولت کے نصف النہار پر ہی کیوں نہ ہوں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ بادشاہوں کے مقبرے تو ویران ہوں لیکن گوشہ نشین فقیروں کے مزاروں پر رونقیں ختم ہی نہ ہوتی ہوں۔میرا ذاتی تجربہ بہت لمبا چوڑا ہے لیکن صرف تین مثالوں پر اکتفا کروں گا۔صرف تین تجربے شیئر کرتا ہوں دنیا کے عظیم ترین فاتحین و سلاطین میں سے ایک مسلمان عالیشان سلطنت عثمانیہ کا فخر ہے لیکن استنبول میں اس کے مزار پر ہم چند دوستوں کے علاوہ کوئی نہ تھا ۔تاج محل میں ممتاز محل جیسی ملکہ عالم اور اس کا شوہر ’’شہنشاہ آفاق شاہ جہاں‘‘ آسودہ خاک ہیں اک دنیا وہاں جاتی ہے لیکن ممتاز محل اور شاہ جہاں کیلئے نہیں، تاج محل دیکھنے کیلئے ، اس لئے فاتحہ خواں خال خال۔ پیرس میں ملٹری جینئس شہنشاہ فرانس نپولین بوناپارٹ کی قبر پر بھی ہم تین چار دوستوں کے سوا اور کوئی نہ تھا حالانکہ وہاں نپولین کا فیورٹ ذاتی گھوڑا ہی سٹف کرکے نہیں رکھا گیا ،نپولین کے زیر استعمال رہنے
والا اسلحہ، یونیفارمز اور واربیڈ(WAR BED)بھی موجود ہے۔ کوئی ویرانی سی ویرانی تھی ۔دوسری طرف لاہور سے دہلی اور اجمیر شریف تک ، پاکپتن سے ملتان اور سندھ تک ’’بڑی رونقیں ہیں فقیروں کے ڈیرے‘‘ کہ دراصل فقر ہی فخر ہے۔حیرت ہے یہ کہانی ملکہ ہندوستان نور جہاں کو زندگی میں ہی سمجھ آ گئی تھی ورنہ وہ یہ کبھی نہ لکھتی’’برمزار ما غریباں نے چراغے نے گلے ‘‘دنیا کو ہیچ سمجھنے والوں کی آرام گاہوں پر نہ کبھی پھول کملاتے دیکھے نہ چراغ بجھتے دیکھے لیکن کسی فانی کو یہ کہانی سمجھ نہیں آتی ۔آج کے جہانگیروںاور نور جہانوں کی آنکھوں سے تو جیسے نور ہی روٹھ چکا، عقل بھی چل بسی ۔کوئی ’’ای سی ایل‘‘ پر، کسی کے ریڈوارنٹ، کچھ انٹرپول کے آگے آگے، یہاں نیب وہاں ایف آئی اے تو یہ سب تجاوزات کا نتیجہ ہے۔ضرورتیں بہت محدود، ہوس زر لامحدود اور حدود سے گزرجانا ہی تو تجاوزات جس کی پاناما سے پارک لین تک کوئی حد نہیں۔برطانیہ کے مقبول ترین اخبار ’’ڈیلی ٹیلیگراف ‘‘ نے انکشاف کیا ہے کہ ملکوں ملکوں شہروں شہروں آصف زرداری کی کھربوں کی جائیدادیں ہیں، پنجاب کے ’’شر‘‘ داری کے بارے میں پہلے بہت کچھ منظر عام پر آچکا تو بندہ سوچتا ہے کہ اتنی دولت کے ساتھ تھوڑی سی جینوئن عزت بھی کمالیتے کہ دولت کی تو ہرگز نہیں ،عزت کی سو فیصد ضمانت ہے کہ اگلی نسلوں کے کام آئے گی، منتقل بھی ہو جائےگی۔لیکن سوال یہ ہے کہ’’ضرورت‘‘ کو کون کیسے DEFINEکرے گا؟ تو کسی خوبصورت شاعر کا جواب حاضر ہے ؎دل میں اب تک جل رہی ہیں آرزو کی دو لوئیںایک وہ اچھی سی لڑکی، ایک وہ چھوٹا سا گھرباقی جتنا پھیلاتے جائو، یہ دنیا سکندر، چنگیز خان اور تیمور کی تلواروں سے بہت لمبی اور ڈھالوں سے بہت چوڑی ہے جو نہ کبھی کسی کی ہوئی نہ ہو گی ورنہ آج بھی فرعون حکمران ہوتے اور بل گیٹس قارون کا منشی ۔کہا، دنیا ایک پل ہے اور پلوں پر گھر نہیں بنتےیہ عشرت کدہ نہیں، ماتم کدہ ہےدنیا اندھوں کے ہاتھی جیسی ہےدنیا اک خس پوش کنواں ہےمال اور جمال کو بے وفائی میں کمال حاصل ہےخواب میں خواب دیکھنے کی مانند ہےدنیا مگرمچھوں سے بھرا دریا، کنارے تک قیام رکھویہاں ایسے رہو جیسے انڈے میں پرندہدنیا بہتا پانی جس میں عکس جتنی مہلت بھی نہیںدنیا ایک ٹرانزٹ …انجام سفر نامعلومبستر مرگ پر دو سو سال کی زندگی بھی ایک ساعت کا 7واں حصہ ضعیف العمر بوڑھا،بینائی سے محروم رعشہ سے کانپ رہا تھا،کسی صالح جوان نے سہارادے کر منزل تک پہنچایا تو بوڑھے نے اسے درازی عمر کی دعا دی تو اس نوجوان نے کہا ’’بابا جی ! میں نے ایسا کیا برا کیا کہ آپ مجھے درازی عمر کی بددعا دے رہے ہیں ‘‘’’یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے ؟‘‘