وزیراعظم جناب نوازشریف نے لندن سے پاکستان روانگی سے قبل‘ اپنی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ”پاناما لیکس میں میرا نام آیا اور نہ الزام لگایا گیا۔ پھر بھی چاہتے ہیں کہ کمیشن بنے‘‘۔ عالمی میڈیا کے وہ سارے لوگ‘ وہ سارے ماہرین اور سارے سیاست دان جھک مار رہے ہیں کہ پاناما لیکس میں ہمارے وزیراعظم کا نام بھی آیا ہے۔مجھے اصولاً اپنے وزیراعظم کی بات پر یقین کرنا پڑے گا۔وہ بلاوجہ لندن نہیںگئے تھے۔ بلاوجہ ماسکو بھی نہیں گئے ۔ فرانزک ماہرین سے ملاقاتیں بھی بلاوجہ نہیں کی ہیں۔ وزیراعظم کا فرمان یہ ہے کہ پاناما لیکس میں نہ تو ان کا نام آیا اور نہ ان پر کوئی الزام لگا۔ اس کے باوجود کمیشن بنانے کی باتیں ہو رہی ہیں۔ انہوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ کمیشن پھر بھی بنے گا۔خود وزیراعظم کے بقول پاناما لیکس میں ان کے بیٹوں کے نام ضرور آئے ہیں اور انہوں نے سرکاری ٹی وی پر بیٹوں کی صفائی پیش کرتے ہوئے یہ ضرور کہا ہے کہ انہوں نے کس طرح ڈالروں اور پائونڈز میں بھاری رقوم کمائیں؟ اور ان سے لندن میں قیمتی فلیٹس خریدے۔
وزیراعظم کی بیان کردہ کہانی کے مطابق”ان کے والد محترم نے جبری جلاوطنی کے دوران‘ سعودی عرب میں سٹیل مل کا ایک کارخانہ خریدا‘ جس کے لئے سعودی بنکوں سے قرض حاصل کیا گیا۔ چند برسوں بعد یہ فیکٹری تمام اثاثوں سمیت فروخت کر دی گئی اور یہ وسائل میرے بیٹوں حسن اور حسین نے نئے کاروبار کے لئے استعمال کئے‘‘۔دلچسپ بات یہ ہے کہ مرحوم میاں محمد شریف صاحب نے جو کارخانہ لگایا وہ نہ صرف تھوڑے ہی عرصے بعد ‘بھاری قیمت پر فروخت ہوا بلکہ سعودی بنکوں سے یہ کارخانہ لگانے کے لئے جو قرض لیا گیا تھا‘ اسے اتار کے منافع کی رقم حسن کو دے دی گئی۔ بیچ میں میاں شریف صاحب کے تینوں بیٹوں کو کچھ نہیں ملا۔یہ بات جناب وزیراعظم کے خطاب سے اخذ کی جا سکتی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں آبائی وراثت سے خود کو کیسے الگ کیا؟اس کا جواب ان کے وضاحتی خطاب میں نہیں ملتا۔میاں شریف صاحب کی کمائی ہوئی دولت سے شہباز شریف اور ان کے بیٹوں کو کیوں کچھ نہیں ملا؟ اس کا جواز بھی سامنے نہیں آیا۔بہر حال یہ گھریلو باتیں ہیں۔ کاروبار کی غیر معمولی صلاحیتیں رکھنے والے ‘نو عمر نوجوان ایسی بھاری سرمایہ کاری کی مہارت کیسے حاصل کر پائے؟ اس کا بھی کوئی معقول جواز موجود نہیں۔ جناب وزیراعظم کی بیان کردہ کہانی کے مطابق‘ سٹیل مل سے کمائی گئی جو رقم حسن اور حسین کو دی گئی‘ اس سے نہ صرف انہوں نے چار قیمتی فلیٹس خریدئے بلکہ اتنی دولت بھی کما لی کہ اسے جمع کرنے کے لئے‘ پاناما میں آف شور کمپنیوں کی ضرورت پڑ گئی۔ترقی کرنے اور دولت کمانے کا ایسا حیرت انگیز واقعہ‘ شاذو نادر ہی رونما ہوتا ہے۔ جہاں تک وزیراعظم کے بچوں کا تعلق ہے ان کی گفتگو سن کر ‘کوئی شخص یہ نہیں سوچ سکتا کہ انہوں نے اتنی کثیر دولت‘ اپنی ذاتی صلاحیتوں کے بل بوتے پر کمائی ہو گی۔دنیا کے ذہین ترین نوجوان بھی اتنے قلیل عرصے میں‘ اتنی زیادہ دولت نہیں کما سکے ہوں گے‘ شاید بل گیٹس بھی نہیں۔ ہمارے وزیراعظم کے بچوں کے ساتھ کتنی نا انصافی ہے کہ ان کا نام اب تک‘ دنیا کی امیر ترین شخصیتوں میں کیوں نہیں آیا؟ خیر یہ ایک خاندان کی حیرت انگیز ترقی کی علیحدہ کہانی ہے۔ مجھے تو وزیراعظم کی تازہ دلیل پر تعجب ہو رہا ہے۔انہوں نے فرمایا”پاناما لیکس میں میرا نام آیا‘ نہ الزام لگایا گیا۔ پھر بھی چاہتے ہیں کہ کمیشن بنے‘‘۔حیرت کی بات ہے کہ بقول وزیراعظم نہ تو پاناما لیکس میں خود ان کا نام آیا اور نہ ہی ان پر الزام لگا‘ اس کے باوجود وہ کمیشن کس لئے بنا رہے ہیں؟ کیا اپنے بے گناہ بچوں کی کاروباری ترقی کا جواز فراہم کرنے کیلئے؟وزیراعظم نے پہلے ہی قومی خزانے سے چلنے والے سرکاری ٹیلی ویژن کا وقت‘ اپنے بچوں کی کاروباری صلاحیتوں کا چرچا کرنے کے لئے استعمال کیا۔ جب وزیراعظم پر الزام ہی نہیں آیا اور نہ ہی ان کے نام پر کوئی کمپنی ہے تو پھرایوان اقتدار میں یہ ہنگامہ کیوں برپا ہے؟وزیرخزانہ اسحاق ڈار قائم مقام وزیراعظم کی خدمات کیوں سر انجام دے رہے ہیں حالانکہ وہ سینیٹ کے رکن ہیں۔کابینہ کے اراکین سے کس حیثیت میں میٹنگز کر رہے ہیں؟ ان کی وزارت خزانہ کا سیکرٹری پاناما کے نائب وزیرخزانہ سے ملاقاتیں کیوں کر رہا ہے؟ پاناما میں پاکستانی ریاست کے مالیاتی مفادات کیا ہیں؟ جو سیکرٹری خزانہ جیسے اعلیٰ ترین وفاقی افسر کو پاناما کے نائب وزیر خزانہ سے ملاقات کے لئے اتنی دور جانا پڑا۔ وزیراعظم نے ہڑبڑاہٹ میں لندن جانے کے لئے ‘اپنا جہاز پہلے ماسکو میں کیوں اتارا؟ اور وہاں سے لندن جا کر کابینہ کے اراکین سے ملاقاتیں کیوں کیں؟ کیا اسحاق ڈار ‘ سرتاج عزیز اور متعدد دیگر سرکاری اہلکار‘ لندن میں وزیراعظم سے ملنے گئے تھے یا انہیں کوئی دوسرا سرکاری کام تھا؟ پاناما سکینڈل منظر عام آنے کے بعد‘ ہمارے وزیراعظم اور کابینہ کے سرکردہ اراکین کو‘ ہنگامی طور پر لندن کے دورے کیوں کرنا پڑے؟ اور یہ سب کچھ کرنے کے بعد‘ وزیراعظم کس معاملے کی تحقیقات کرنے کے لئے‘ کمیشن قائم کر رہے ہیں؟ جب وزیراعظم کاپاناما سکینڈل سے تعلق ہی نہیں تو کمیشن بنا کر قومی خزانے پر بوجھ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ شریف گھرانے کے نوجوان ارب پتی تاجر جانیں یا عالمی قوانین۔ وزیراعظم نے اپنے بچوں کے دفاع میں جو دلائل
پیش کئے ہیں‘ وہ کچھ گڑ بڑ سے ہو گئے ہیں۔ کہیں وہ اپنے والد مرحوم کی تجارتی کامیابیوں کا ذکر کرتے ہیں‘ کہیں براہ راست پوتو ں کی طرف آجاتے ہیں۔ خود جناب نوازشریف نے کاروبار میں کیا کامیابیاں حاصل کیں؟ اس کا کہیں ذکر نہیں آیا۔ بچوں میںاعلیٰ درجے کی تجارتی صلاحیتیں کیسے پیدا ہو گئیں؟ یقیناً انہوں نے اپنے دادا مرحوم سے سیکھا ہو گا۔وہ بے شک حیرت انگیز کاروباری صلاحیتیں رکھنے والی شخصیت تھے۔ حسن جو کہ حسین سے عمر میں چھوٹے ہیں‘ سعودی عرب میں سٹیل مل کے معاوضے سے حاصل شدہ بھاری رقم لے کر اکیلے برطانیہ کیسے چلے گئے؟ اور پھر انہوں نے ایسا کون سا کاروبار کیا‘ جس سے لندن میں رہائشی فلیٹس کے علاوہ ‘کاروبار کرنے کے لئے قیمتی ترین جائیدادیں بھی خرید لیں۔ اس عجیب و غریب کاروباری حساب کتاب کا دفاع کمیشن میں کیسے کیا جائے گا؟ جناب وزیراعظم خواہ مخواہ فراخ دلی سے کام لیتے ہوئے‘ ایسی دولت کی تحقیقات کے لئے ‘پاکستانی عوام کے سرمائے سے کمیشن کیوں قائم کر رہے ہیں؟جو دولت انہوں نے کمائی ہی نہیں‘ جو جائیدادیں انہوں نے خریدی ہی نہیں‘ پاناما کی آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری انہوںنے کی ہی نہیں‘ ان سب کی چھان بین کے لئے وزیراعظم نے کمیشن قائم کرنے کی پیش کش کیوں کر دی ہے؟ میاں صاحب کے مریدوں پر مشتمل پارلیمنٹ میں‘ کسی نے پاناما لیکس پر کوئی سوال ہی نہیں اٹھایا۔ کوئی اعتراض ہی نہیں کیا۔ پھر کمیشن قائم کرنے کی بات‘ وزیراعظم کی تائید کرنے والی پارلیمانی اکثریت میںسے ‘ کسی نے کیوں نہیں کی؟ جتنے وزیر اور نائب وزیر اس سوال پر بات کر رہے ہیں‘ وہ سب کے سب وزیراعظم کے دفاع میں بولتے ہیں۔اگر وزیراعظم کے بھولے بھالے دلائل پر غور کیا جائے تو وہ کسی مشکل میں نظر نہیں آتے۔ ان پر کوئی جواب دہی بھی لازم نہیں ہے۔ ان کی کابینہ کے وزرا کو بھی بلاوجہ صفائی پیش کرنے ضرورت نہیں۔جناب اسحاق ڈار کا قیمتی وقت ‘جس کا مول اربوں ڈالر میں لگتا ہے‘ وہ پاناما سکینڈل پر بلاوجہ کیوں ضائع کیا جا رہا ہے؟ اور رائیونڈ سے پاناما تک بنائے گئے‘ انڈر پاس میں سفر کر تے ہوئے ‘ جناب اسحاق ڈار پر اسرار طور پر پاناما کیسے جا پہنچے؟ اوروہاں کے نائب وزیرخزانہ سے کس طرح ملے؟ پاناما کا نائب وزیرخزانہ بھی کتنا احمق ہے کہ ہمارے سیکرٹری خزانہ کو وزیرخزانہ سمجھتا رہا اور اب اپنی صفائیاں پیش کر رہا ہے کہ اس کی ملاقات تو سیکرٹری خزانہ سے ہوئی تھی۔ موجودہ صورت حال میں ہمارے وزرا بوکھلائے پھر رہے ہیں تو اس کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ لیکن پاناما کا نائب وزیرخزانہ کیوں بوکھلا گیا؟ کیا واقعی پاکستانیوں کی اتنی دولت پاناما میں جمع ہو گئی ہے کہ وہاں کے وزیرخزانہ کے ہوش و حواس گم ہو گئے؟ایک طرف ہم پر قرضوں کا اتنا بوجھ ہے کہ نسلوں تک اتارا نہیں جا سکے گا اور دوسری طرف پاناما کی حکومت اور آف شور کمپنیوں کی یہ حالت ہے کہ ہماری دولت کے بوجھ سے ان کی کمر جھکی جا رہی ہے۔