یہ ہے وہ زوال!…رؤف کلاسرا
پاکستان کے ایک بڑے کالم نگار ایاز امیر نے پچھلے دنوں اوپر نیچے کیا شاندار کالم لکھے ہیں ‘ اور وہ بھی اردو میں ۔ ان کالموں کو پڑھ کر پہلے عجیب سرور طاری ہوا‘ پھر بے یقینی ‘ حیرت اور آخر میں افسردگی۔ واقعی یہ سب کچھ کبھی اس ملک میں ہوتا تھا ۔ ایاز امیر کی یہ خوبصورتی رہی ہے کہ وہ ان موضوعات پر بھی خوبصورتی سے لکھ لیتے ہیں‘ جن کے بارے میں بڑے بڑے لکھاری ‘ لکھنا تو دور کی بات ‘ سوچنے سے بھی ڈر تے ہیں ۔
ایاز امیر کے پاس لفظوں کا ذخیرہ ہے اور وہ ان کا استعمال کرنا بھی جانتے ہیں۔ انہوں نے کبھی پارسا بننے کی کوشش نہیں کی‘ وہ جیسے ہیں ویسے ہی خود کو تحریروں میں پیش کرتے ہیں۔ اسلام آباد ہوتے تھے تو کبھی کبھار شام کے وقت کچھ دوستوں کو اسلام آباد کلب بلالیتے تھے ‘جہاں سب کی تواضع ان کی پسند‘ نا پسند کے مطابق کی جاتی تھی ۔ پھر وہ بھی فل ٹائم صحافی بن گئے اور انہیں احساس ہوا کہ صحافی دوسروں کی دعوتوں میں جایا کرتے ہیں ‘ کسی کو بلایا نہیں کرتے ۔ ایاز امیر سے پہلے ہمارے کالم نگار دوست شاہد صدیقی نے راولپنڈی کے پرانے دنوں پر جو کالم لکھا‘ اسے پڑھ کر بھی عجیب سرشاری طاری رہی ۔ پرانے راولپنڈی کی جن دوپہروں اور شاموں کا ذکر انہوں نے کیا‘ اگرچہ ان راہوں سے میرا کبھی گزر نہیں ہوا ‘ لیکن اب گزروں تو لگے گا کہ شاید ہم بھی کبھی ان محفلوں میں شریک تھے‘ جن کا ذکر شاہد صدیقی کے خوبصورت قلم نے کیا ہے۔ شاہد صدیقی اردو کالم نگاروں کی فہرست میں ایک اہم اضافہ ہیں ۔ لیکن دوسری طرف ایاز امیر کی انگریزی کو ہم مس کرتے ہیں۔بلاشبہ اگر کوئی انگریزی میں کالم لکھتا تھا تو وہ ایاز امیر تھا ۔ بے پناہ علم اور انگریزی ‘ روسی‘ فرنچ ادب اور تاریخ پر کمانڈ ۔ فوج کی نوکری اور اوپر سے سیاست کا تڑکہ‘ جیسے دال کو دیسی گھی لذیذ بنادیتا ہے ۔ حیرانی ہوتی ہے کہ پاکستان کا کوئی انگریزی اخبار ایاز امیر کے کالموں کا بھاری پتھر اٹھانے کے قابل نہیں۔ جب ایاز امیر نے انگریزی اخبار میں لکھنا بند کیا تو محسوس ہوا شاید زندگی میں اچانک کسی چیز کی کمی ہوگئی ہے۔ برسوں پرانی عادت ‘ ایک پرانا نشہ‘ نہ ملے تو بدن ٹوٹنے لگتا ہے۔
انگریزی میں لکھی گئی سیاسی ڈائریوں اور پارلیمنٹ سے لکھے گئے شاہکار مراسلے شاہین صہبائی‘ عامر متین ‘ نصرت جاوید ‘محمد مالک ‘ ایم ضیاء الدین جیسے بڑے نام کبھی لکھتے تھے ۔ آپ کو ان سب کو پڑھنے کے لیے تین چار انگریزی اخبارات پڑھنے پڑتے تھے اور آپ دو تین گھنٹے ان انگریزی اخبارات میں کھو جاتے تھے‘ جن میں یہ سب لکھتے تھے ۔ پھر پتہ ہی نہ چلا یہ سب ایک ایک کر کے انگریزی اخبارات چھوڑتے گئے۔ اخبارات ان کی تحریوں کا بوجھ نہ اٹھا سکے اور یہ سب ان اخبارات کے مالکان کی شرائط پر لکھنے کو تیار نہ ہوئے۔ آج انگریزی اخبار اٹھائیں تو پانچ منٹ بعد آپ کو سمجھ نہیں آتی اب کیا پڑھا جائے۔ اب سیاست پر تجزیہ پڑھنے کو نہیں ملتا ‘ اب یہ سب دوست ٹی وی پر بیٹھے ملتے ہیں ۔ شاید ہم بوڑھے ہورہے ہیں کہ لکھے ہوئے لفظ کی بولے ہوئے لفظ سے زیادہ سمجھ آتی ہے۔ ٹی وی نے ہمیں چیخنے چلانے پر مجبور کر دیا ۔ وہ تحریریں ماضی کا قصہ ہوئیں‘ جن میں نفاست تھی‘سٹائل تھا ۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں پر طعنے مارنے کا جو فن تھا ‘ اندر کی خبر کو ایسے بیان کرنا جیسے قاری ساتھ بیٹھا ہو‘ وہ دھیرے دھیرے غائب ہوگیا ۔ پارلیمنٹ سے انگریزی اخبارات کی سیاسی ڈائریاں غائب ہونا شروع ہوئیں ۔ پہلے شاہین صہبائی غائب ہوئے‘ پھر عامر متین‘ محمد مالک ‘ ضیاء الدین اور آخر میں نصرت جاوید ۔ ہم اپنے ان پیارے لکھاریوں کو ایک ایک کر کے انگریزی جرنلزم سے دور ہوتے بے بسی سے دیکھتے رہے۔ انگریزی اخبارات نے بھی پروانہ کی کہ کیسے کیسے ہیرے وہ کھو رہے تھے۔ وہ الٹا خوش ہوئے اور صحافت کی بجائے کاروبار کرنے لگے۔ آج پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو حیران ہوتا ہوں‘ پچھلے بیس برس میں کیا کچھ بدل گیا ہے۔
بیس برس قبل جب ملتان سے اسلام آباد آیا تو ان سب کا طوطی بولتا تھا ۔ ڈان کے زیرو پوائنٹ دفتر میں کیا کیا محفلیں ہوتی تھیں ۔ کیسے کیسے بڑے نام وہاں اکٹھے ہوتے تھے۔ احمد حسن علوی سب کی میزبانی کرتے‘برکی صاحب شام کو آتے‘ ہم سب کو ڈانٹتے ‘ غلطیاں نکالتے‘کسی کی جرأت نہ ہوتی آگے سے ایک لفظ بول دے۔ ایک دن مجھے شدید ڈانٹا ‘ میں سر جھکا کر رہ گیا ۔ وہ علوی صاحب سے بات کررہے تھے اور میں نے کوئی بات علوی صاحب سے پوچھ لی‘ اس پر بگڑ گئے اور بولے :تم سب نوجوان اتنے بدتمیز کیوں ہوتے ہو‘ پتہ نہیں میں بات کررہا ہوں۔ میں نے معذرت کی۔ برکی صاحب بھٹو صاحب کے بہت قریب رہے تھے‘ بھٹو صاحب کے خلاف بات نہ سن سکتے تھے۔ اکثر ان کی ضیاء الدین صاحب سے چھوٹی موٹی بحثیں چلتی رہتی تھیں‘ آخر جب بحث تھوڑی تلخ ہونے لگتی تو ضیاء الدین صاحب‘ ایچ برکی صاحب کے احترام میں ہنستے ہوئے اُٹھ جاتے۔ برکی صاحب کے بغیر بھٹو صاحب کوئی پریس کانفرنس شروع نہ کرتے۔ ساری عمر جمہوریت کے لیے لکھا اور بولا۔ ایک صبح پورا اسلام آباد ہل کر رہ گیا جب برکی صاحب کا انگریزی اخبار میں مضمون جنرل مشرف کے حق میں چھپا ۔ قیامت سی آگئی تھی ۔ بھٹو کی پھانسی کی وجہ سے فوجی آمروں سے نفرت تھی اور اب ایک آمر کے حق میں دلائل دے رہے تھے۔ پیپلز پارٹی کے سیاستدانوں کی کرپشن نے انہیں بہت مایوس کیا تھا ۔
پھر ایک ایک کر کے سب لکھاری غائب ہوتے گئے۔ کسی کو احساس نہ ہوا۔ آج آپ انگریزی اخبار اٹھائیں تو آپ کو کچرا پڑھنے کو ملتا ہے۔ جنہوںنے عمر بھر پارلیمنٹ کا منہ نہ دیکھا‘ وہ سیاست پر گروُ کا درجہ لیے بیٹھے ہیں ۔ کبھی انگریزی اخبارات نے غور نہیں کیا کہ انہوں نے کیا کچھ کھویا ہے۔ اتنے بڑے ناموں کے بعد جس طرح کا ہجوم انگریزی اخبارات نے اکٹھا کر کے عوام کو پڑھانا شروع کیا اس پر ہنسی آتی ہے۔ ایاز امیر نے تو ابھی پاکستانی معاشرے کے زوال کی کہانی لکھی ہے اور پرانے دنوں کو یاد کیا ہے۔ کسی دن وہ وقت نکال کر انگریزی اخبارات اور جرنلزم کے زوال پر بھی لکھیں ۔ وہ زیادہ دور نہ جائیں پچھلے پندرہ‘ بیس برس میں جو انگریزی جرنلزم کا نقصان ہوا ہے‘ جس طرح کے بڑے بڑے جغادری لکھاریوں‘ صحافیوں اور کالم نگاروں کی جگہ جو بچگانہ اور طنزیہ لہجے کے لکھاریوں کو عروج ملا ہے‘ اس پر وہ آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکیں گے۔ ہم سمجھتے تھے وقت کے ساتھ ساتھ شاہین صہبائی‘ عامر متین ‘ محمد مالک ‘ ایاز امیر ‘ ضیا الدین اور نصرت جاوید کے بعد ایک بہتر کلاس انگریزی اخبارات میں کالم یا سیاست پر کمنٹ کرتے ملے گی۔ پتہ چلا ہے ان بیس برسوں میں انگریزی اخبارات ایک بھی ایاز امیر‘ شاہین صہبائی‘ عامر متین‘ ضیاء الدین پیدا نہیں کرسکے ‘جس کی پارلیمنٹ سے سیاسی ڈائری یا سیاسی کمنٹری کا انتظار کیا جاتا ہو۔ آج کل کتنا سیاسی بحران ہے اور مجال ہے آپ کو کسی اخبار میں کوئی ایسی تحریر پڑھنے کو ملے کہ آپ اش اش کر اٹھیں۔ میری طرح ٹامک ٹوئیاں مارنے والے درجنوں مل جائیں گے۔
ایاز امیر معاشرے میں بڑھتی ہوئی گھٹن کو رو رہے ہیں‘ میں انگریزی صحافت کے گرتے ہوئے معیار کو رو رہا ہوں۔ کبھی لکھا ہوا لفظ مقدس تھا۔ اب گپ شپ بن گیا ہے۔سوچا تھا بھوانی جنکشن پر لکھوں گا ۔ ہالی ووڈ کی شہرہ آفاق فلم جو لاہور میں فلمائی گئی تھی‘ جس کا ذکر ایاز امیر نے اپنے کالم میں کیا ‘ لیکن لکھنے بیٹھ گیا ان بڑے صحافیوں پر جو آج بھی زندہ ہیں لیکن جن کی تحریروں کا بوجھ انگریزی اخبارات نہیں اٹھا سکے۔ جن شرائط پر اخبارات ان بڑے ناموں سے پارلیمنٹ کی ڈائریاں لکھوانا چاہتے تھے‘ وہ یہ سب افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔ جو یہ سب لکھنا چاہتے تھے‘ وہ انگریزی اخبارات کے مالکان افورڈ نہیں کرسکتے تھے۔ نقصان ہمارے جیسے عام قاری کا ہوا ‘جنہیں ان کی سیاسی تحریریں پڑھنے کی عادت تھی ۔ وہ سب جن کی لکھی ہوئی ایک تحریر اور انگریزی اخبار میں چھپنے والی ایک پارلیمانی ڈائری اگلے روز پارلیمنٹ میں ہنگامہ برپا کردیتی تھی ۔ ایک وقت تھا وزیراعظم اور حکمران تک ان صحافیوں سے ملنا اپنے لیے فخر سمجھتے تھے۔ آج کل کے گپ باز لکھاری اور بچے جمورے وزیراعظم سے ملاقات کو اپنے لیے فخر سمجھتے ہیں ۔
یہ ہے وہ فرق اور یہ ہے وہ زوال