منتخب کردہ کالم

122 ارب ڈالر کا مالک؟

چین ہمارا پڑوسی ہی نہیں بلکہ ہمارا انتہائی مخلص دوست بھی ہے، ویسے تو چین ہمیشہ ہی ہماری ضرورتیں پوری کرنے میں پیش پیش رہا ہے لیکن اقتصادی راہداری معاہدے کے حوالے سے چین پاکستان کے ساتھ جو شراکت داری کر رہا ہے اس کے فوائد کا ذکر ہمارا حکمران طبقہ ہی نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے کے لوگ کر رہے ہیں۔ ہمارے وزیراعظم اس حوالے سے عوام کو بار بار یہ نوید دے رہے ہیں کہ اقتصادی راہداری کا معاہدہ عوام کی زندگی میں انقلاب پیدا کردے گا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب چین کے مال بردار جہاز گوادر پورٹ سے گزریں گے تو پاکستان کی اقتصادی زندگی میں ایک بامعنی ہلچل پیدا ہوگی، اقتصادی سرگرمیاں تیز ہوں گی، لیکن ہم جس معاشی نظام میں زندہ ہیں اس معاشی نظام میں کسی بھی بڑی سے بڑی اقتصادی سرگرمی یا اقتصادی ترقی میں عوام کا حصہ عموماً روزگار تک محدود ہوتا ہے۔ اقتصادی سرگرمیوں اقتصادی ترقی کا اصل فائدہ اشرافیہ کو ملتا ہے خواہ وہ اقتدار میں رہے یا اپوزیشن میں۔ پاک چین اقتصادی راہداری معاہدے کا اصل فائدہ ہماری اشرافیہ، ہمارے بڑے کاروباری طبقے ہی کو ہوگا، عوام کے حصے میں صرف محدود روزگار آئے گا یا چھوٹا موٹا کاروبار۔

چین میں جب تک سوشلسٹ معیشت نافذ تھی چین کی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچتے تھے اور اقتصادی اور سماجی مساوات کا عالم یہ تھا کہ ماؤزے تنگ جو کپڑے پہنتا تھا وہی کپڑے چینی عوام پہنتے تھے۔ ماؤ جس طرح زندگی گزارتا تھا، چینی عوام بھی اسی سطح کی زندگی گزارتے تھے۔ چین میں کرپشن اور جرائم نام کی کوئی چیز موجود نہ تھی۔

سماجی زندگی میں ایمانداری کا حال یہ تھا کہ کوئی چیز سڑک پر گرجاتی تو کوئی اسے اٹھاتا نہ تھا، اگر اٹھاتا تھا تو اسے گمشدگی کے سرکاری اداروں میں جمع کرا دیتا تھا۔ اس حوالے سے ایک واقعہ بڑا مشہور ہوا تھا۔ پاکستانی سفیر کی اہلیہ ٹرین میں سفر کے دوران اپنا طلائی ہار بھول گئی تھیں، وہ ہار چند دنوں کے اندر انھیں مل گیا تھا، پاکستانی میڈیا میں اس واقعے کا بڑا چرچا رہا تھا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چینی معاشرے میں اس قسم کی روایات اور کلچر کے فروغ کی وجہ کیا تھی؟ اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام انسانوں میں ہر جائز و ناجائز طریقے سے دولت کے حصول کا جو جنون پیدا کرتا ہے وہ سوشلسٹ میں موجود نہ تھا۔ یہ درست ہے کہ سماجی اور معاشی مساوات کی وجہ سے چینی زندگی میں وہ رنگا رنگی وہ معاشی تفریق موجود نہ تھی جو سرمایہ دارانہ نظام کی ’’رونق‘‘ کہلاتی ہے۔

چین سمیت سابق تمام سوشلسٹ ملکوں میں سوشلسٹ معیشتیں ختم کردی گئیں اور اس کی جگہ منڈی کی معیشتیں رائج کردی گئیں جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ چین میں معاشی مساوات کی جگہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں اور کرپشن کے ذریعے چند ہاتھوں میں ارتکاز زر کا کلچر مستحکم ہونے لگا۔

ایک اخباری خبر کے مطابق چین کے ایک ’’ڈالیان وانڈا‘‘ گروپ کے چیئرمین وانگ جیان لن نے اپنے بیٹے وانگ سیکونگ کو اپنی 122 ارب ڈالر کی دولت کا وارث بنانا چاہا تو اس کے بیٹے وانگ سیکونگ نے اپنے باپ کی 122 ارب ڈالر کی وراثت لینے سے انکار کردیا، اور کہا کہ میں آپ جیسی زندگی گزارنا نہیں چاہتا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ڈالیان وانڈا گروپ کے چیئرمین وانگ جیان لن کے پاس 122 ارب ڈالر کی ناقابل یقین دولت کیسے آگئی؟ بلاشبہ یہ دولت بے ایمانی اور منافع کے نام پر لوٹ مار کے ذریعے ہی آسکتی ہے۔ چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے کاروبار میں منافع کی کوئی حد مقرر نہیں۔ اس لیے وانگ جیان لن 122 ارب ڈالر کا مالک بن گیا۔

کیا چینی زندگی میں اب اقتصادی ترقی کے ثمرات براہ راست اور منصفانہ طور پر عوام تک پہنچ رہے ہیں؟ اس کا منطقی جواب یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ممکن ہی نہیں کہ اقتصادی ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ سکیں، اگر اقتصادی ترقی کے منصفانہ ثمرات عوام تک پہنچنے لگیں تو وانگ جیان لن کے ہاتھوں میں 122 ارب ڈالر آ ہی نہیں سکتے۔ جب 122 ارب ڈالر ایک شخص کے ہاتھوں میں جمع ہوجائیں گے تو لاکھوں لوگ غربت کے اندھیروں میں گم رہیں گے۔

سرمایہ دارانہ نظام کا حامل چین تیزی سے اقتصادی ترقی کر رہا ہے، سستی اشیائے صرف بناکر چین دنیا کی منڈیوں پر چھاتا جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملکوں کی منڈیاں ہی نہیں بلکہ امریکا جیسے ترقی یافتہ ملکوں کی منڈیاں بھی چین کی سستی اشیائے صرف سے بھری پڑی ہیں، اب تو امریکا کے نئے صدر ٹرمپ بھی کہہ رہے ہیں کہ ہم امریکا کی منڈیوں میں چین کی سستی اشیا کے داخلے کو روکیں گے۔ چین کی اس ناقابل یقین اقتصادی ترقی سے عام چینی کی زندگی میں بھی کچھ بہتری آرہی ہے لیکن عوام کی زندگی میں آنے والی اس بہتری کو ہم سرمایہ دارانہ نظام کی زکوٰۃ کے علاوہ کیا نام دے سکتے ہیں۔

امریکا اور دوسرے ترقی یافتہ ملکوں کے عوام کو بھی کچھ معاشی فوائد حاصل ہو رہے ہیں لیکن آج بھی ان ملکوں میں غربت ہے، بے روزگاری ہے، اس کی وجہ یہی ہے کہ مغربی ملکوں میں بھی معیشت پر چند وانگ جیان لن قابض ہیں، بس ان کے نام بدلے ہوئے ہیں، یہ ارب اور کھرب پتی کہیں بل گیٹس کی شکل میں موجود ہیں، کہیں وانگ جیان لن کی، کہیں لکشمی متل کی۔

پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والا اقتصادی راہداری کا منصوبہ بلاشبہ پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ ہموار کرے گا لیکن اس کا 90 فیصد حصہ 2 فیصد اشرافیہ اور اس کے حواریوں کے قبضے میں ہی چلا جائے گا اور 10 فیصد میں 90 فیصد غریب عوام اپنی غربت کے مزے اڑاتے رہیں گے۔ عوام اور خواص کے درمیان اس اقتصادی خلیج کو ہرگز ہرگز نہ کوئی اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاٹ سکتا ہے نہ ترقی یافتہ ملکوں اور ان کے مالیاتی اداروں کی امداد اور قرض اس خلیج کو پاٹ سکتے ہیں۔

گوادر پورٹ کی تیز ہوتی ہوئی اقتصادی سرگرمیاں اور ہزاروں میل پر پھیلی ہوئی اقتصادی راہداری اس ملک کے کروڑوں بے روزگار عوام میں سے ایک محدود تعداد کو روزگار تو مہیا کرسکتے ہیں لیکن انھیں ایک خوشحال اور آسودہ زندگی نہیں دے سکتے، اس کے لیے سرمایہ دارانہ نظام کی جگہ ایک متبادل منصفانہ نظام لانا ہوگا۔ کیا چین کی کمیونسٹ پارٹی اس مسئلے پر غور کر رہی ہے؟