زی۔ کیو منظور
سی پیک پورے پاکستان کیلئے ہیں اور اس سے مغربی حصوں کے لوگوں سمیت تمام پاکستانی عوام کویکساں فوائد حاصل ہوں گے۔مغربی روٹ کی مبینہ تبدیلی ، بلوچستان و خیبر پختون خوا کو نظر انداز کرنے اور سی پیک کو چین پنجاب کوریڈور قرار دینے پرچینی سفارتخانے نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے واضح کیا کہ اقتصادی راہداری کسی ایک صوبے کانہیں بلکہ پاکستان کے 20کروڑعوام کی تقدیربدلنے کامنصوبہ ہے۔
ملکی ترقی کے اہم اور گیم چینجر منصوبہ سی پیک کے خلاف جہاں دشمنوں، بد خواہوں اور مخالفین کی معاندانہ اور مخاصمانہ ریشہ دوانیاں عروج پر ہیں تو وہیں مخصوص مفاد پرست سیاسی ٹولہ راہداری کے خلاف نفاق پیدا کرکے اور حقارت کے بیج بو کر قوم کوگمراہ اور تقسیم کرنے کی ناکام کوششیں کر رہا ہے اورمنصوبہ کو متنازعہ بنا کر بیرونی پشت پناہوں کے ناپاک ایجنڈے کو تقویت دے رہاہے۔ سی پیک کے خلاف زہریلی سازش آشکارہونے کے بعد چینی سفارتخانے کے ڈپٹی چیف آف مشن ژاؤلی جیان نے مغربی روٹ پر تنقید، بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو کم حصہ ملنے کے تاثر کو یکسر مسترد کرکے شکست خوردہ سیاستدانوں کے غبارے سے ہوا نکال دی۔ چینی ترجمان نے واضح کیا کہ سی پیک کے تحت پاکستان میں51 ارب 50 کروڑڈالرکے مختلف منصوبوں پر کام جاری ہے جن میں بلوچستان کے 16، سندھ کے 13، پنجاب کے 12 جبکہ خیبرپختونخوا کے 8 منصوبوں شامل ہیں۔ بلوچستان میں زیرتعمیر 16 منصوبوں میں خضداربسمہ ہائی وے، ڈی آئی خان کوئٹہ ہائی وے، حبکو کول پاور پلانٹ، گوادرپاورپلانٹ، گوادرٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل کالج، گوادرنواب شاہ ایل این جی ٹرمینل و پائپ لائن، گوادرایسٹ بے ایکسپریس وے I، گوادرایسٹ بے ایکسپریس وے II، گوادرویسٹ واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹ، گوادر پرائمری سکول ، گوادر نیو انٹر نیشنل ایئرپورٹ، گوادر سمارٹ پورٹ سٹی ماسٹر پلان اور ملٹی پرپوزٹرمینل کی توسیع شامل ہے۔ خیبرپختونخوا کے 8 منصوبوں میں ایم ایل ون کی فزیبلیٹی سٹڈی اوراپ گریڈیشن، حویلیاں ڈرائی پورٹ کا قیام، حویلیاں تا تھاکوٹ قراقرم ہائی وے II ، رائے کوٹ تا تھاکوٹ قراقرم ہائی وےIII ، ڈی آئی خان کوئٹہ ہائی وے، سوکی کناری ہائیڈرو پاورپراجیکٹ اورراولپنڈی سے خنجراب تک آپٹک فائبر کیبل کی تنصیب شامل ہے۔چینی ترجمان نے منصوبوں پرتنقید کرنے والوں سے سوال کیا ہے کہ کیا اب بھی یہ چین پنجاب اقتصادی کوریڈورہے۔
چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے کیلئے مجموعی رقم 51ارب 50کروڑڈالر رکھی گئی ہے۔ جس میں 35بلین ڈالر کی خطیر لاگت سے 17ہزار میگا واٹ توانائی کے منصوبوں لگائے جائیں گے جن میں سے 10ہزار 400میگا واٹ بجلی 2018ء تک قومی گرڈ میں شامل ہو گی ۔ اس سے نہ صرف لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو گا بلکہ 3000میگا واٹ بجلی سرپلس بھی ہوگی۔ 3ارب 56کروڑڈالر 1736 کلومیٹر ایم ایل ریلوے نیٹ ورک کیلئے مختص تھی جو اب بڑھ کر 8ارب ڈالر ہو چکی ہے۔ ایک ارب ڈالر گوارد بندر گاہ اور شہر کی ترقی کیلئے مختص ہیں۔ گوادر سے خنجراب تک ہائی ویز اور موٹرویز نیٹ ورک کیلئے 4ارب ڈالر رکھے گئے ہیں جس میں حویلیاں/تھاہکوٹ سے برہان تک 120کلو میٹر موٹر وے کی تعمیرہے جبکہ340کلومیٹر کراچی پشاور موٹر وے سیکشن 2018تک مکمل ہو جائے گا۔ جبکہ 660کلومیٹر گوادر سے سہراب /کوئٹہ تک مغربی روٹ دسمبر 2016ء میں مکمل ہو جائے گا اور مغربی روٹ پر ہی 129ارب روپے کی لاگت سے 285کلو میٹر ڈیرہ اسماعیل خان سے ہکلہ / برہان سیکشن بھی تعمیر کیا جائے گا۔800کلومیٹر پر مشتمل خنجراب سے راولپنڈی/اسلام آباد ڈیجیٹل کوریڈو کیلئے 44ملین ڈالر جبکہ حویلیاں ڈرائی پورٹ کی تعمیر کیلئے 40ملین ڈالرمختص ہیں۔
اگر ملک بھر میں سی پیک کے تحت جاری ترقیاتی منصوبوں کا جائزہ لیا جائے تو 14 ارب ڈالر کی لاگت سے 30 منصوبوں پر کام زورو شور سے جاری و ساری ہے جبکہ 16 منصوبے تکمیل کے مرحلے میں داخل ہو چکے ہیں۔سی پیک کے تمام منصوبہ جات 2018ء میں جبکہ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ 2020ء میں مکمل ہوگا۔ توانائی کے کچھ منصوبے کا 70فیصد کام مکمل ہو چکا ہے اور جون 2017ء یہ تمام پروجیکٹس پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے۔قاسم پورٹ پاور پروجیکٹ اور داؤد ہائیڈروپاور پراجیکٹ جلد مکمل ہو جائیں گے جبکہ سلک روڈ فنڈزکی معاونت سے کروٹ ہائیڈوروالیکٹرک پاور پراجیکٹ پرجاری ہے۔ چین نے توانائی کے مختلف منصوبوں پر جاری
کام کی رفتار، ٹرانسپورٹ، انفراسٹریکچر اور سڑکوں کی پر اطمینان کا اظہار کیا ہے ۔کراچی لاہور موٹر وے کے سکھر ملتان سیکشن زیر تعمیر ہے۔اس منصوبے سے پنجاب اور سندھ کے 10ہزار ملازمتوں کے مواقع میسر آئے ہیں ۔
یہ امیر حقیقت ہے کہ اقتصادی راہداری منصوبے سے جہاں چین کو مالی و دفاعی فوائد حاصل ہوں گے وہیں پاکستان کی اہمیت بھی دو چند ہو جائے گی۔ اس سے خائف استعماری قوتیں خصوصاًبھارت، امریکہ اور ان کے چہیتے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ عیار دشمن اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کے اندر آگ لگا کر اسے کمزور کیا جائے اور بدامنی کی ایسی فضاقائم کر دی جائے جس سے سی پیک پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے ۔ اکھنڈ بھارت ایک طرف جنیوا میں بلوچستان کے حقوق کیلئے پاکستان کیخلاف کرائے کے مظاہرین سے احتجاج کراتا تو دوسری طرف جعلی پٹیشن سے وائٹ ہاؤس میں وطن عزیز کو دہشتگردوں کا کفیل ملک قرار دینے کی سازش کرتا ہے۔لیکن اس پٹیشن پر بھارت کے منہ اتنا زوردار طمانچہ رسید ہواہے جس کی گونج پورے ہندوستان میں سنائی دی گئی۔ اطلاعات یہ بھی آرہی ہیں کہ بلوچستان میں ایک بار پھر انتشار اور بدامنی پھیلانے کیلئے کلبھوشن نیٹ ورک دوبارہ متحرک ہو چکا ہے۔ کلبھوشن یادی کو ہدایات دینے والا شخص انیل شرما نے چاہ بہارسے پاکستان دشمنوں سے رابطے تیز کر دیئے ہیں ۔صوبائی حکام نے اس بات کی تصدیق بھی کر چکے ہیں کہ بلوچستان میں تمام لشکربھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ اور این ڈی ایس سپورٹ فنڈز سے چل رہے ہیں۔
یہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کو دولخت کرنے اور بنگلہ دیش کے قیام میں غیر سرکاری تنظیموں(این جی اوز) کا کردار کلیدی رہا ۔ اور اب بھی اقتصادی راہداری منصوبہ کو ناکام بنانے کیلئے غیر ملکی فنڈنگ کے تحت کام کرنے والی تنظیمیں اپنابھرپور حصہ ملا رہی ہیں۔ یہ این جی اوز غیر ریاستی عناصر ، دہشتگردوں کی مالی معاونت اور کالعدم تنظیموں کو فنڈز فراہم کر کے پاکستان کی تجارتی شہ رگ سی پیک کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہمہ تن سرگرم ہیں۔ بلوچستان ،خیبرپختون خوا اور گلگت بلتستان میں غیر ملکی فنڈنگ این جی اوز انتشار پھیلا کراور نفاق کی آگ بھڑکا کر پاکستان مخالف ایجنڈے کو دوام بخش رہی ہیں۔این جی اوز مقامی افراد، قبائل اور چند سرداروں کو خرید کر انہیں پاکستان مخالف سرگرمیوں میں الجھا رہی ہیں۔ آج ان کارندوں کی پاکستان مخالف کارروائیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ ایسٹ تیمور کی انڈونیشیا اور سوڈان سے جنوبی سوڈان کی علیحدگی میں بھی این جی اوز ہی کا ہاتھ تھا۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کی جانب سے سی پیک کے حوالے سے تحفظات اور اعتراضات کاتسلی بخش جواب دینے کے باوجود شکست خوردہ سیاستدان راہداری منصوبے کو ناکام بنانے کیلئے تمام اسباب بروئے کار کا رہے ہیں اور سی پیک کو متنازع بنانے پر مصر ہیں۔ان کا مقصد ملک میں افراتفری پھیلا کر حکومت کو یکسوئی سے کام سے روکنا اور پاکستان ، چین کے باہمی تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنا ہے۔ان نازک حالات میں ایک معمولی سا واقعہ ہی معاشی شہ رگ کو گزندپہنچا سکتا ہے۔ محب وطن سیاستدانوں کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ پاکستان کی ترقی و خوشحالی کے منصوبے سی پیک کو کو سیاست کی آگ میں جھونک دیں۔ یہ وقت سیاست چمکانے یا نفرت کے بیج بونے کا نہیں بلکہ قومی اور ملکی مفادمیں وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور موجودہ حکومت کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے تاکہ فولادی ہاتھ سے دشمن کو ایسی کاری ضرب لگائی جائے جسے وہ صدیوں تک نہ بھلا سکے۔