منتخب کردہ کالم

23 مارچ1940سے 23مارچ 2017 تک (غیر فوجی کالم) صولت مرزا

گزرے ہفتے اخبارات ، برقی اور سوشل میڈیا نے یوم ِ پاکستان کے موقع پر منعقدہ عسکری پریڈ کو خصوصی اہمیت دی۔ پُرکشش انداز میں پریڈ کرتے ہوئے پاک افواج کے چاق و چوبند افسر اور جوان ، مشینی کالم ، میزائل بردار دستے ، نیلگوں فضا میں لڑاکا طیاروں کی گھن گرج ، سول آرمڈ فورسز کے جوانوں کا والہانہ پن اور وطن ِ عزیزکے مختلف علاقوں کی ثقافتی نمائندگی کرتے ہوئے فلوٹس کروڑوں نگاہوں کا مرکز تھے ۔ رواں برس کی خوبصورت تقریب کی ایک خاص بات عوامی جمہوریہ چین اور سعودی عرب کے فوجی دستے اور ترکی کا مشہور ‘‘مہتر” عسکری بینڈ تھے ۔ گراؤنڈ میں موجود ہزاروں افراد نے پریڈ میں شریک مہمان دستوں کا زبردست استقبال کیا۔ چین اور سعودی عرب کے فوجی دستوں کو دیکھ کر عوام کا بے ساختہ پن مہمان نوازی کی اعلیٰ روایات کی عکاسی کر رہاتھا۔ورنہ غیر ملکی افواج کو پاک سرزمیں پر شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے دیکھ کر طبیعت ملول ہو جاتی ہے ۔ خاص طور سے ایسے ماحول میں کہ ایک دستہ ہمارے قابل ِ بھروسہ ہمسائے کا ہے جو عالمی طاقت بھی ہے ۔بہرحال سفارت کاری اور عسکری تعاون کے انداز نرالے ہیں ۔ کبھی کبھار غیر ملکی فوج کی پریڈ میں خوبیاں ہی خوبیاں دکھائی دیتی ہیں ۔ دیکھنے والے پریڈ میں شریک دیگر دستوں سے موازنہ شروع کر دیتے ہیں۔ راج نیتی اور رموز ِ سلطنت کے ماہرین بہتر سمجھتے ہوں گے تاہم خود مختار ممالک کے اہم ترین قومی ایام اپنے ہی عسکری اداروں تک محددود رہیں تو اپنے آپ پر بھروسہ اور اعتماد کو مہمیز عطاہو تی ہے ۔
23 مارچ کو منعقدہ عسکری پریڈ منفرد شان و شوکت اور روشن مستقبل کی بھرپور نشاندہی کرتی ہے ۔یہ سلسلہ مدت سے جاری ہے۔ اب یہ دن صرف عسکری پریڈ کے پُرشکوہ انعقاد سے منسوب ہو گیا ہے ۔ شایدیہی وجہ ہے کہ ہمارے بعض پارلیمنٹیرین بھی 23 مارچ کے تاریخی پس منظر سے نا آشنا دکھائی دیتے ہیں۔ ایک نجی ٹی وی چینل پر پنجاب اسمبلی کے چند نامی گرامی ممبران سے 23 مارچ کے حوالے سے سوالات کیے گئے تو ناظرین کو مضحکہ خیز صورت حال سے لطف اندوز ہونے کے مواقع میسر آئے ۔معزز ممبران ِ اسمبلی 23 مارچ کے بارے میں بنیادی معلومات سے لاعلم تھے ۔
بدقسمتی سے رائج الوقت جمہوریت میں سیاستدانوں کی سیاسی تربیت جس انداز میں ہو رہی ہے اُس کے نتیجے میں ایسے ہی مُہمل جوابات کی توقع تھی ۔صٖفِ اول کی دو تین سیاسی جماعتیں تا حیات قسم کے قائدانہ فارمولا کے تابع ہیں ۔ دو تین خاندان سیاسی طاقت کا سرچشمہ تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں کسے فرصت ہے کہ 23 مارچ کے ماضی، حال اور مستقبل پر غور کرے اور ایک مثالی اور سیاسی جدوجہد کی کہانی نئی نسل تک موثر انداز میں منتقل کی جائے۔ دوسری جانب سیاست کی لذت سے آشنا مذہبی جماعتیں اپنی فقہی ترجیحات کو ہمیشہ پیش ِ نظر رکھتی ہیں ۔ یہ جداگانہ انداز ان کی سیاسی ، معاشی اور سماجی بقا کا ضامن ہے ۔ سیاسی گومگوکی تپش اب اعلیٰ ترین سیاستدانوں کو بھی محسوس ہورہی ہے ۔ شاید اس تناظر میں وزیر اعظم نواز شریف نے علمائے کرام سے گزارش کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف متبادل بیانیہ ترتیب دینے میں رہنمائی فرمائیں ۔ حیران کن بات ہے کہ تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے منصب پر فائز شخصیت ”قومی بیانیہ‘‘ کے لیے فقہی اذہان سے رجوع کرنے پر مجبور ہے ۔ اُ نہیں علم ہونا چاہیے کہ قومی بیانیہ ہمیشہ سیاسی قائدین ہی ترتیب دیتے ہیں۔ جنوبی ایشیا کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کی قیادت میں 23 مارچ 1940 کو ایک تاریخی جدوجہد کا آغاز کیا تھا۔ یہ تحریک ایک متفقہ سیاسی بیانیہ کی تشکیل کے بعد شروع کی گئی اور صرف سات برس کی جدو جہد کے نتیجے میں عظیم الشان کامیابی سے ہمکنار ہوئی۔ 23 مارچ کی ایک اور اہمیت متفقہ وفاقی ، پارلیمان اور جمہوری آئین کا نفاذ تھا۔ یہ عمل 23 مارچ 1956 کو مکمل ہوااور پاکستان کو تاج ِ برطانیہ کی قانونی اطاعت سے نجات مل گئی۔ بنگال کے علاقے مرشد آباد سے تعلق رکھنے والے سکندر مرزا نے پاکستان کے پہلے صدر کی حیثیت سے حلف اُٹھایا۔ آج 2017 کے 23 مارچ کی تقریبات میں 1940اور 1956 کے 23 مارچ کو نظر انداز کرنا خود فراموشی اور بے حسی ہے ۔ ایک زمانے میں عسکری پریڈ کے ساتھ سیاسی جماعتیں 23 مارچ کے حوالے سے بھی تقریبات منعقد کرتی تھیں ۔ تعلیمی اداروں میں خصوصی انتظامات کئے جاتے تھے ۔ نوجوان، طالب علم ، بچے بڑے سب مستفید ہوتے تھے ۔ اب 23 مارچ بھی دیگر اہم امور کی طرح افواج کے حوالے کر دیا گیاہے ۔ برسرِ اقتدار سیاست دان محض سلامی لے کر دنیا اور آخرت کی نیکیاں سمیٹتے دکھائی دیتے ہیں ۔
بدقسمتی سے سال رواں کی پریڈ کا سٹیج بھی حسبِ سابق وفاقی لحاظ سے محدود سیاسی سوچ کی عکاسی کر رہا تھا۔ سندھ، خیبر پختون خوا اور بلوچستان دور دور تک نظر نہیں آ رہے تھے ۔ سلامی کے چبوترے پر موجود سیاسی شخصیات وزیر اعظم اور وزیر دفاع پر نظر جائے تو محض ایک صوبے کا خیال ذہن میں آتا ہے ۔ صدر مملکت ممنون حسین کا کراچی سے تعلق ہے ۔ وہ بھی پنجاب کے بل بوتے پر وفاق میں حکمران جماعت کی پسندیدہ شخصیت ہیں۔ ظاہر ہے ایسا ہو نا بھی چاہیے ۔ ذرا چشمِ تصور سے ملاحظہ کیجیے کہ ولولہ انگیز عسکری پریڈ کے دستے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے بلوچ صدر کو روایتی آب و تاب کے ساتھ سلامی پیش کر رہے ہوں تو اُس کے سیاسی ، سماجی اور عسکری اثرات کتنے دور رس ہوں گے ۔ اس عمل سے بلوچستان کے حوالے سے سیاست اور میڈیا میں مثبت پیش رفت نظر آئے گی۔ بدقسمتی سے ہم نے تاریخ سے سبق حاصل نہیں کیا۔ لاہور میں بلوچستان کے طلباو طالبات کو چائے پر بلا کر پنجابی اردومیں لیکچر پلانے یا سرکاری لیپ ٹاپ عطا کرتے ہوئے تصاویر شائع کرنے سے سیاسی لحاظ سے مجروح لسانی اکائیاں قریب نہیں آتیں۔ برقی میڈیا نے عوام کے اذہان میں ‘‘بریکنگ نیوز” کے ساتھ ‘‘بریکنگ ویوز” کو بھی پیوست کر دیا ہے ۔ اب ہر بات پر موازنہ شروع ہو جاتا ہے ۔
23 مارچ 1940 ہو یا 23 مارچ 1956 اور چند روز پہلے گزری ہوئی 23 مارچ 2017 یہ ایام وفاقی اور پارلیمانی جمہوریت کی دلدادہ شخصیات کو دعوتِ فکر دے رہے ہیں ۔ کہیں ایسا تو نہیں خدانخواستہ دوبارہ‘‘ پچھل پیری” کا جادو چل گیاہے ۔ وطنِ عزیز کا مفاد اس بات میں ہے کہ تمام صوبوں میں سیاسی ، سماجی اور معاشی لحاظ سے اپنائیت کا احساس ہو اوربے لوث یکجہتی فروغ پائے ۔ اُ مید ہے کہ 23 مارچ 2018 کو عسکری پریڈ کا سلامی چبوترہ سیاسی لحاظ سے کسی ایک صوبے کی حاکمیت کا مرکز نظر نہیں آئے گا۔