25 جولائی کا بڑا امتحان….مجیب الرحمٰن شامی
25 جولائی اب آیا ہی چاہتا ہے۔ چند روز بعد اس کا سورج طلوع ہو گا اور اہلِ پاکستان ایک بار پھر آئندہ پانچ سال کے لئے اپنے حکمران چنیں گے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان منتخب ہوں گے اور وہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سربراہوں کا انتخاب کریں گے۔ پاکستان کی تاریخ حادثات اور اتفاقات سے بھری پڑی ہے۔ آزادی کے بعد سے آج تک یہاں باقاعدگی کے ساتھ انتخابات نہیں ہو پائے۔ ہمارے ہمسائے بھارت کو بھی ہمارے ساتھ ہی غلامی سے نجات ملی تھی۔ چودہ اور پندرہ اگست کی درمیانی رات برطانوی سامراج کی بساط لپیٹ دی گئی تھی اور متحدہ ہندوستان دو آزاد ریاستوں میں بٹ گیا تھا۔ ایک ملک میں ہندو اکثریت تھی تو دوسرے میں مسلمان۔ دونوں ملکوں میں غیر ہندو اور غیر مسلم کروڑوں کی تعداد میں موجود رہنا تھے۔ ان سب کو اپنی اپنی زمین میں بسنا اور اسے اپنا اپنا وطن سمجھنا تھا۔ انتقال آبادی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اگر صرف ہندو اور صرف مسلمان ممالک تخلیق کرنا ہوتے تو دونوں ملکوں کی آبادی کا تبادلہ بھی کیا جاتا۔ افراد کو ان کی آبادی کے تناسب سے زمین تقسیم کر دی جاتی، لیکن تحریک آزادی کے قائدین نے اس طرح کے کسی خیال کو نہ قبول کیا‘ نہ زبان دی۔ کانگرس کا تو کہنا ہی یہ تھا کہ قومیں وطن سے بنتی ہیں، ایک جغرافیے میں بسنے والے ایک قوم ہوتے ہیں‘ سو ہندوستان کے اندر بسنے والا ہر شخص ہندوستانی ہے۔ برابر کے حقوق کا حق دار۔ مذہب کو ذاتی مسئلہ سمجھتے ہوئے وہ اپنے آپ تک محدود رکھے اور کاروبارِ مملکت کو مذہبی اقدار سے نتھی کرنے کے بجائے ان سے اوپر اٹھ کر چلایا جائے، اسے سیکولرازم کا نام دیا جاتا تھا اور دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی مثال دی جاتی تھی کہ وہاں سب مذاہب کے ماننے والے ایک ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اجتماعی زندگی کی تشکیل کر رہے ہیں۔ مسلم لیگ اور اس کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ مسلمان اپنا ایک تہذیبی اور ثقافتی تشخص رکھتے ہیں، یہ اجتماعی زندگی کو بے لگام چھوڑ نہیں سکتے۔ اس لئے جن علاقوں میں ان کی اکثریت ہے، انہیں یا تو علیحدہ کر دیا جائے یا اتنی خود مختاری دے دی جائے جہاں وہ آزادانہ اپنی اجتماعی زندگی کو ترتیب دے سکیں۔
1946ء کے انتخابات میں جب کانگرس اور مسلم لیگ دو نمائندہ جماعتیں بن کر ابھریں تو مسلم لیگ کے پاس مسلمان ووٹروں کی بھاری اکثریت کا مینڈیٹ تھا اور مسلمانوں کے لئے مختص نشستوں کی بہت بڑی تعداد اس نے حاصل کر لی تھی۔ دونوں جماعتوں اور قابض برطانوی حکومت کے نامزد کردہ نمائندوں کے درمیان طویل رابطوں اور بات چیت کے بعد طے پایا کہ علاقائی خود مختاری کا تصور بروئے کار نہیں لایا جا سکتا، اس لئے برصغیر کو ہندو اور مسلم اکثریت کے علاقوں میں تقسیم کر دیا جائے، تاکہ دو الگ الگ ریاستیں وجود میں آ سکیں۔ نظریاتی اور سیاسی بحثوں سے قطع نظر، سو باتوں کی ایک بات یہ ہے کہ یہ ایک انتظامی تقسیم تھی، جس میں دو مختلف نظریات کے حاملین کو اپنے جوہر آزمانے کا موقع دے دیا گیا تھا۔ کانگرسی اور مسلم لیگی رہنمائوں کو اپنے اپنے آدرشوں کے مطابق کارِ آشیاں بندی کرنا تھا۔ ہندوستان یا بھارت میں آج بھی کم و بیش اتنے مسلمان موجود ہیں، جتنے پاکستان میں اپنی آزادانہ مملکت چلا رہے ہیں۔ اگر بنگلہ دیش نہ بنتا تو پاکستان میں بھی کروڑوں کی تعداد میں یعنی اس کی آبادی کا کم و بیش ایک چوتھائی غیر مسلم موجود ہوتے۔ آج پاکستان کہلانے والے ملک میں غیر مسلموں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور یوں ان کی اجتماعی زندگی کی تشکیل بلا شرکت غیرے ان کے ہاتھ میں ہے۔
پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے‘ جسے بجا طور پر بانیان پاکستان کا اجتماع قرار دیا جا سکتا ہے‘ قراردادِ مقاصد منظور کی اور اعلان (یا عہد) کیا کہ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، جسے عوام کے منتخب نمائندوں کے ذریعے بروئے کار لایا جائے گا۔ گویا پاکستان کے خمیر میں یہ بات ڈال دی گئی کہ عوام کے منتخب نمائندوں کے علاوہ کسی اور کو اس کا نظم و نسق چلانے کا حق نہیں۔ بھارتی دستوریہ نے بھی قراردادِ مقاصد منظور کی، سیکولرازم کو اپنا مقصود ٹھہرایا اور پارلیمانی جمہوریت کو اپنا لیا۔ اس کا اولین دستور آج بھی نافذ ہے، اس کے تحت باقاعدگی سے انتخاب ہوتے چلے آ رہے ہیں۔ کئی بار وہاں جانا ہوا لیکن دستور میں طے شدہ مسائل پر کوئی مباحثہ یا تنازعہ وہاں دیکھنے میں نہیں آیا۔ سول اور ملٹری تعلقات بھی کسی مذاکرے کا موضوع بنتے نہیں پائے گئے۔ لگے بندھے ضابطوں کے تحت دستور کی پٹڑی پر زندگی کی گاڑی چلتی چلی جا رہی ہے۔ اپنے عہد کے ساتھ ہم نے جو کچھ کیا اس کی شہادت ہمارے گزشتہ 70 سال دے رہے ہیں۔ ان کی تفصیل میں جانے کا موقع نہیں، لیکن گزشتہ دس سال میں ہم اب تیسرے انتخاب کا مزہ چکھ رہے ہیں۔ دو منتخب حکومتیں اپنی پانچ سالہ مدت پوری کر چکی ہیں، اس کے باوجود انتخاب کا مرحلہ آیا ہے تو طرح طرح کے نکتے اٹھانے والے، زائچے بنانے والے، جوڑنے اور توڑنے والے، اٹھانے اور بٹھانے والے، ڈھانے اور اکھاڑنے والے آ موجود ہوئے ہیں۔ برسرِ زمین اور زیر زمین کارروائیاں شروع ہیں۔ انتخابات کو معمول کی کارروائی سمجھنے کی روش ابھی تک نہیں اپنائی جا سکی۔ الزام و دشنام کی برسات ہے۔ ایک بڑی جماعت (مسلم لیگ ن) کے قائد طویل مقدمہ بازی کے بعد اپنی بیٹی کے ساتھ قید کی سزا بھگت رہے ہیں۔ زندانوں میں موجود رہنما کے نعرے میدانوں میں لگ رہے ہیں اور ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگے جا رہے ہیں۔ ان کے سب سے بڑے حریف (عمران خان) کو ریاستی اداروں کا لاڈلا قرار دیا جاتا ہے‘ تیسری بڑی جماعت (پیپلز پارٹی) اپنی جگہ سازش کی بو سونگھ رہی ہے۔ مثالیں دے دے کر اعتراضات اٹھائے جا رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن زیرِ بحث ہے‘ نیب اور پنجاب کی نگران حکومت پر خاص طور پر انگلیاں اٹھائی جا رہی ہیں۔ میڈیا کو جاری کئے جانے والے احکامات کی دہائی دی جا رہی ہے۔ کئی سیاسی پنڈت انتخاب کے بعد ایک بڑے سیاسی اتحاد کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں، جو انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ 2018ء کو 1977ء بنا دیا جائے گا۔ اگر ایسا ہوا تو پھر ویسا بھی ہو گا۔ اس لئے دعا ہے کہ نہ ایسا ہو، نہ ویسا ہو۔ 1977ء میں پاک فوج ایک غیر جانبدار ادارے کے طور پر موجود تھی، جس نے حالات کو اپنی گرفت میں لے لیا… لیکن اب بیرون اور اندرون ملک اٹھائے جانے والے سوالات اسے لپیٹ میں لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس لئے الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں سے کہیں بڑھ کر ہمارے باوقار سپہ سالار (جنرل قمر جاوید باجوہ) کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس صورت حال کا توڑ کریں اور یوم انتخاب کو کسی بھی طور کسی بھی وسوسے سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ انہوں نے واضح کر دیا ہے کہ پاک فوج کا انتخابات سے کوئی تعلق نہیں، اسے الیکشن کمیشن کی معاونت کرتے ہوئے صرف سکیورٹی کی ذمہ داری نبھانا ہے۔ اس کا ہر شخص نے خیر مقدم کیا ہے، لیکن انصاف ہونا ہی نہیں چاہئے، ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہئے۔ کسی شکایت کے فوری ازالے کے لئے نگران سیل قائم کیا جائے، تاکہ ای میل، انٹرنیٹ یا ٹیلی فون کے ذریعے فریاد پہنچائی جا سکے۔ اطلاع دینے والے کا نام اخفاء میں رکھنے کی ضمانت دی جائے۔ پاک فوج پر قوم کے اعتماد کو کسی صورت ٹھیس نہیں پہنچنی چاہئے، یہ فساد جو بھی اٹھائے اور جہاں بھی اٹھے، اسے فی الفور دبا دینا ہو گا۔ 25 جولائی کا بڑا امتحان یہی ہے۔