منتخب کردہ کالم

چار سو ملین ڈالر کی مونگ پھلی..رئوف طاہر

چار سو ملین ڈالر کی مونگ پھلی..رئوف طاہر

جمعہ کی صبح یہ جناب ایاز امیر کا فون تھا۔ وہ اس روز کا جمہور نامہ ”میجر عامر نے یاد دلایا‘‘ پڑھ چکے تھے اور اب ایک غلطی کی طرف توجہ دلانا چاہتے تھے۔ خوشی ہوئی کہ ہمارے حلقۂ قارئین میں ایاز امیر بھی ہیں لیکن یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ سرخی میں میجر عامر کا نام ان کیلئے باعث کشش ہو۔ ویسے ہم جناب ایاز امیر کی تحریر کے عشروں سے اسیر ہیں۔ 1980ء کی دہائی سے‘ جب وہ کراچی کے ایک بڑے انگریزی اخبار میں لکھا کرتے تھے۔ اردو میڈیم ہونے کے باوجود ہماری انگریزی بھی ایسی خراب نہ تھی لیکن انگلش اخبارات کے ایڈیٹوریل صفحات اس زبان کے حوالے سے ایک خاص صلاحیت کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم ایاز امیر (اور جناب اردشیر کائوس جی) کے کالم پڑھتے ہوئے ڈکشنری ساتھ رکھتے کہ حسب ضرورت کام آئے۔
1997ء میں ایاز امیر‘ نواز شریف والی مسلم لیگ کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہو گئے۔ لبرل اور روشن خیال ایاز امیر کی مسلم لیگ سے وابستگی ہمارے لیے قدرے اچنبھے کا باعث تھی۔اگرچہ جناب مشاہد حسین اور پرویز رشید صاحب جیسے ترقی پسند بھی مسلم لیگ میں آ چکے تھے اور اس کے میڈیا سیل میں اہم خدمات انجام دے رہے تھے۔ یاد پڑتا ہے‘ دائیں بازو کے خلیل ملک اور صدیق الفاروق بھی میڈیا سیل میں شامل تھے۔
ایاز امیر کا پنجاب اسمبلی کا رکن بن جانا‘ سچ بات یہ ہے کہ ہماری آنکھوں میں جچا نہیں۔ ہم اسے ان کے اصل مقام سے فروتر سمجھتے تھے لیکن بسا اوقات آدمی کو کچھ مجبوریاں بھی آ لیتی ہیں اور ایازامیر کی مجبوری شاید علاقے میں اپنے والد کا سیاسی ورثہ تھا‘ چودھری امیر صاحب 1970ء کے الیکشن میں بھٹو صاحب کی پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے۔ ان کے قتل کے بعد ایاز کو ان کا سیاسی ورثہ بھی سنبھالنا تھا۔ انگریزی زبان کا بڑا کالم نگار‘ اب پنجاب اسمبلی کے اڑھائی سو ارکان میں سے ایک تھا۔ اس کی جماعت وفاق کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں برسراقتدار تھی۔ ہمارے صحافتی فرائض میں پنجاب اسمبلی کی کوریج بھی شامل تھی۔ ایاز سرکاری بنچوں پر بیٹھتے لیکن ہمیں ان میں ”سرکار‘‘ کی قربت کیلئے کوئی خاص بے تابی اور سرکاری مراعات و مفادات کیلئے کوئی رغبت نظر نہ آتی۔ اور پھر ”12اکتوبر‘‘ ہو گیا۔ ڈکٹیٹر کو اپنی ”سرکاری نوکری‘‘ کے تحفظ کیلئے آئین شکنی میں بھی عار نہ تھی لیکن اپنی”Legitimacy” کیلئے اس نے جس 8نکاتی ایجنڈے کا اعلان کیا‘ احتساب اس کا اہم نکتہ تھا۔ خود کو احتساب کے لئے پیش کرتے ہوئے اس نے اپنے جن اثاثوں کا اعلان کیا‘ اس میں درجن بھر پلاٹ بھی تھے (ان میں کوئی ایک بھی اسے ورثے میں نہیں ملا تھا۔ یہ نوکری کے دوران اس کی ”حق حلال کی کمائی‘‘ تھی) ہمیں یاد ہے‘ ایاز امیر نے اس پر کالم لکھا تھا‘ ایک شخص کو کتنے پلاٹ چاہئیں۔
اکتوبر2002ء کا الیکشن بھی ایاز نے مسلم لیگ کے ٹکٹ پر لڑا‘ میاں صاحب کی جلاوطنی کے دوران‘ یہ ان کے نام سے منسوب مسلم لیگ تھی۔ قومی اسمبلی کا یہ الیکشن وہ شاید ہزار‘ بارہ سو ووٹوں سے ہار گئے تھے۔ کیا ڈکٹیڑ کی ٹارگٹ لسٹ میں ایاز کا نام بھی تھا؟ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر 2008ء کا الیکشن وہ کمفرٹیبل میجارٹی کے ساتھ جیت گئے۔ سیاست کے ساتھ صحافت بھی جاری تھی اور اس میں وہ اپنی جماعت کی پالیسی اور جماعتی ڈسپلن سے ہٹ کر خاصی ”لبرٹی‘‘ کا مظاہرہ کرتے جس پر لیڈرشپ نے کبھی ناراضی کا اظہار نہ کیا (جاوید ہاشمی تو ایوان کے اندر اور باہر اپنی تقاریر میں کبھی ریڈ لائنز بھی عبور کر جاتے تھے۔ چودھری نثار علی خان اس حوالے سے تازہ مثال ہیں۔ اس کے باوجود پارٹی میں ”جمہوریت‘‘ نہیں؟ اظہار رائے کی آزادی نہیں؟)
یاد آیا‘ یہ غالباً 2012ء کے اواخر کی بات ہے۔ عطاء الحق قاسمی‘ جس نے وارث روڈ پر ”معاصر‘‘ کے دفتر میں میاں صاحب کو لنچ پر مدعو کیا تھا۔ یہاں بہت کھینچ تان کر بھی سات‘ آٹھ مہمانوں سے زیادہ کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس روز ان میں ایاز امیر بھی تھے۔ ان کی موجودگی میاں صاحب کیلئے خوشگوار حیرت کا باعث تھی۔ جاتے ہوئے پرجوش مصافحے کے ساتھ وہ کہہ رہے تھے ”آپ کے کالم بڑے شوق اور بڑے اہتمام سے پڑھتا ہوں‘‘۔ ایاز امیر 2013ء کے الیکشن میں ٹکٹ سے کیوں محروم رہے؟ یہ ایک الگ کہانی ہے۔ اب ان کا کالم ہویا ٹی وی کا ٹاک شو‘ وہ میاں صاحب کے سخت ترین ناقدین میں شمار ہوتے ہیں۔
وہ جو کہا جاتا ہے‘ خیال اپنا اپنا‘ تو تجزیہ اور رائے بھی اپنی اپنی۔ لیکن تاریخی حقائق کا معاملہ الگ ہے اور اسی حوالے سے ایاز امیر گزشتہ کالم میں ایک غلطی کی اصلاح کرنا چاہتے تھے۔ صدر کارٹر کی جس امداد کو جنرل ضیاء الحق نے مونگ پھلی کہہ کر مسترد کر دیا تھا‘ وہ چالیس ملین نہیں‘ چار سو ملین ڈالر کی تھی۔
گرم پانیوں تک رسائی وہ خواب تھا جو لینن کے سرخ انقلاب سے پہلے زاروں کے عہد میں بھی روسی دیکھتے آئے تھے۔ وسط ایشیا کی مسلم ریاستوں کو ہڑپ کرنے کے بعد روس دریائے آمو کے کنارے آن پہنچا تھا۔ ظاہر شاہ کے عہد میں افغانستان روسی حلقۂ اثر میں شامل تھا۔ دہلی کے ساتھ کابل کے تعلقات بھی ہمیشہ پرجوش رہے۔ از خرابی بسیار صدر دائود نے ماسکو اور دہلی کے شکنجے سے نکلنے کا فیصلہ کر لیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور پھر جنرل ضیاء الحق کے ابتدائی مہینوں میں وہ اسلام آباد آئے۔ لاہور کے تاریخی شالامار باغ میں‘ شہری استقبالیہ میں انہوںنے ضیاء الحق کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اسلام آباد اور کابل کو یکجان دو قالب قرار دیا‘ وہ کہہ رہے تھے‘ ہم نے دلوں کی ڈیورنڈ لائن گرا دی ہے۔ کابل کی یہ نئی سوچ ماسکو کیلئے ناقابل برداشت تھی۔ اسلام آباد سے واپسی پر صدر دائود دم بھی نہ لینے پائے تھے کہ ماسکو نواز کمیونسٹوں کے ہاتھوں قتل کر دئیے گئے اور ان کی جگہ ماسکو کے قابل اعتماد نور محمد ترہ کئی براجمان ہو گئے۔ کچھ عرصے بعد وہ یہاں کے کمیونسٹ دھڑوں ”خلق‘‘ اور ”پرچم‘‘ کی کشمکش میں جان سے گئے تو حفیظ اللہ امینی ان کے جانشین ہوئے۔ ادھر کمیونسٹ اقتدار کے خلاف افغان مزاحمت سر اٹھا رہی تھی‘ جس پر افغان روایات کے ساتھ اسلامی رنگ غالب تھا۔ کابل کو ہاتھ سے جاتا دیکھ کر ماسکو براہ راست مداخلت‘ عریاں جارحیت پر اتر آیا۔ 25 دسمبر 1979ء کی شب روسی ٹینک افغانستان میں داخل ہوئے‘ حفیظ اللہ امینی قتل کر دئیے گئے اور روسیوں نے ببرک کارمل کو تخت پر بٹھا دیا جو ان کے ساتھ ہی روسی ٹینک پر سوار ہو کر یہاں پہنچا تھا۔
پاکستان سینڈوچ بن گیا تھا۔ اس کی مشرقی سرحد پر بالادستی کے جنون میں مبتلا بھارت پہلے سے موجود تھا۔ 1971ء میں جو ماسکو کے ساتھ فوجی معاہدے کے بعد پاکستان کے مشرقی حصے کو الگ کر چکا تھا۔ اب شمال مغربی سرحد پر ایک سوپر پاور آن بیٹھی تھی۔ گرم پانیوں تک رسائی جس کا صدیوںپرانا خواب تھا۔ گزشتہ عشروں میں ماسکو نے بلوچستان میں ”کام کے بندے‘‘ تیار کر لئے تھے۔ صوبہ سرحد میں ماسکو اور دہلی کے نمک خوار موجود تھے۔ ہم ان دنوں لاہور میں بھی روس نواز دانشوروں کی آنکھوں میں متوقع فتح کا نشہ دیکھتے…نشہ بڑھتا ہے‘ شرابیں جو شرابوں میں ملیں‘ ”بس طورخم کی سرحد عبور کرنے کی دیر ہے‘ پھر روسی کامریڈوںکو واہگہ تک پہنچنے میں وقت ہی کتنا لگے گا؟‘‘
تب صدرکارٹر کے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر برونسکی جنرل ضیا کو حوصلہ دینے آئے؟ ”ہم روس کو طورخم بارڈر عبور نہیں کرنے دیں گے‘‘۔ افغانستان کی حد تک روسی قبضے کوا مریکی ذہنی طور پر قبول کر چکے تھے۔ ”لیکن ہماری سلامتی تو اس میں ہے کہ روس افغانستان سے واپس چلا جائے۔ دریائے آمو کے اس پار‘‘ جنرل ضیا کا جواب تھا۔ ”لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ روسی ریچھ جہاں پہنچ گیا‘ وہاں سے واپس نہیں گیا‘‘۔ ”لیکن افغانوں کی بھی اپنی تاریخ ہے۔ اپنی آزادی اور خودمختاری کیلئے کٹ مرنے کی تاریخ۔ انہوں نے ماضی میں کسی غیر ملکی استعمار کے قدم نہیں جمنے دئیے تو زود یابدیر روسیوں کو بھی پسپائی کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا‘‘۔ انہوں نے امریکیوں کو افغان سرزمین کے بارے میں بتایا جو گوریلا جنگ کیلئے بہترین تھی اور افغانوں کے بارے میں بھی جن میں گوریلا جنگ کیلئے بہترین صلاحیتیں موجود تھیں۔ یہی وہ ملاقات تھی جس میں جنرل ضیاء الحق نے صدر کارٹر کی چار سو ملین ڈالر کی امداد کو ”مونگ پھلی‘‘ (Pea Nut)کہہ کر مسترد کر دیا تھا۔ ”مونگ پھلی‘‘ صدر کارٹر کا آبائی کاروبار تھا‘ جس نے اس جملے کا لطف دوبالا کر دیا۔