6 ستمبر سے تازہ ملاقات..مجیب الرحمٰن شامی
53 سال پہلے ستمبر کی 6 تاریخ کو بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو پاکستانی قوم صدارتی انتخاب کی لگائی ہوئی چوٹوںکو سہلانے میں مصروف تھی۔ اس سال کے آغاز ہی میں محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے میں فیلڈ مارشل ایوب خان صدر منتخب ہوئے تھے۔ انتخابی مہم کے دوران تلخی عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ محترمہ کو اپوزیشن جماعتوں نے متحد ہو کر اپنا امیدوار چنا تھا۔ ان کی طرف سے قبولیت کے اعلان نے ایوان صدر میں زلزلہ برپا کر دیا تھا۔ انتخاب میں بنیادی جمہوریتوں کے 80 ہزار ارکان نے حصہ لینا تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان ان کی تعداد مساوی تھی۔ بنیادی جمہوریتوں کے ارکان کے چنائو سے پہلے دونوں امیدوار رابطہ عوام مہم پر تھے۔ قائد اعظم کی ہمشیرہ ہونے کے ناتے محترمہ فاطمہ جناح کی پذیرائی دیدنی تھی۔ وہ جہاں بھی جاتیں، ٹھٹھ لگ جاتے۔ ایوب خان اقتدار میں تھے، ان کی سج دھج بھی اپنی تھی، لیکن محترمہ کی جارحانہ پیش قدمی ان کے پائوں تلے سے زمین نکال چکی تھی۔ سرکاری وسائل اور انتظامی مشینری کو بے دریغ استعمال کیا جا رہا تھا۔ اس کے باوجود محترمہ نے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کر لئے۔ مشرقی پاکستان میں تو دونوں کے درمیان فرق محض 2578 کا تھا۔ عام خیال تھا کہ اگر براہ راست انتخاب ہوتا تو محترمہ بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لیتیں۔ انتخابی مہم اور نتائج کی پیدا کردہ تلخیوں نے پاکستانی قوم کو تقسیم کر رکھا تھا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی کامیابی پر اپوزیشن کے حامی روزنامہ ”نوائے وقت‘‘ نے سرخی لگائی تھی: ”الیکشن کمیشن نے ایوب خان کی جیت کا اعلان کر دیا‘‘… عوام کی بڑی تعداد اس جیت کو حقیقی سمجھنے پر تیار نہیں تھی۔ ایوب خان کے سیاسی قد کاٹھ کو چرکے لگ چکے تھے۔ بھارتی فوج حملہ آور ہوئی تو پوری قوم ہڑبڑا کر اٹھی اور یوں متحد ہوئی کہ ایک عالم ششدر رہ گیا۔
بھارتی فوج اس عزم کے ساتھ لاہور کی طرف پیش قدمی کر رہی تھی کہ اس کے افسر شام کے مشروبات سے جم خانہ میں لطف اندوز ہوں گے۔ فتح کے نشے میں وہ یوں سرشار تھے کہ بی بی سی کو لاہور پر قبضے کی پیشگی خبر دے دی گئی۔ یہ نشریہ بی بی سی کی تاریخ کا سب سے بڑا جھوٹ ثابت ہوا۔ پاکستانی فوج کے غازیوں اور شہیدوں نے حملہ آوروں کے راستے میں لہو کی دیوار چین کھڑی کر دی۔ شہری دیوانہ وار سرحدوں کی جانب دوڑ پڑے۔ ممتاز شاعر، اخبار نویس اور دانشور صفدر میر کی فی البدیہہ نظم نے ان میں بجلیاں بھر دی تھیں۔ چلو واہگہ کی سرحد پر، وطن پر وقت آیا ہے۔ یہ کوئی ایک شہر کا منظر نہیں تھا۔ پورا ملک لاہور بن گیا تھا۔ ڈھاکہ سے کراچی اور چٹاگانک سے طورخم تک سب یک آواز تھے، ایک دوسرے کے ساتھ جڑ گئے تھے۔ کسی کو یاد نہیں رہا تھا کہ وہ کس پارٹی سے ہے، سب کی جماعت ایک تھی، اس کا نام تھا پاکستان۔ ہر شخص اپنی ہر شے نچھاور کرنے کے لئے تیار تھا۔ مثالی امن قائم ہو چکا تھا، چوری، ڈکیتی اور قتل و غارت کی وارداتیں ختم تھیں۔ شاعروں، گلوکاروں، موسیقاروں نے قومی جذبے کو اس سرعت کے ساتھ زبان دی کہ ایک ایک دن میں کئی کئی ترانے تیار ہونے لگے۔ ریڈیو پاکستان پوری قوم کی آواز بن گیا۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے 6 ستمبر ہی کو اپنے ہم وطنوں سے خطاب کیا، ان کی زبان سے یہ الفاظ ادا ہوئے کہ : بھارت کو معلوم نہیں کہ اس نے کس قوم کو للکارا ہے، تو یوں سمجھئے کہ پوری تاریخ زندہ ہو کر اہلِ پاکستان کی پشت پر کھڑی ہو گئی۔ ایوب خان نے صدا لگائی : اٹھو، اور کلمے کا ورد کرتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑو۔ کئی گنا بڑا دشمن قدم آگے نہ بڑھا سکا۔ سرحدوں ہی پر منجمد ہو کر رہ گیا۔
53 سال بعد 6 ستمبر کی شام جی ایچ کیو کے سبزہ زاروں میں غازیوں اور شہیدوں کے ہزاروں وارث جمع تھے۔ چند ہی ہفتے پہلے پاکستانی قوم پارلیمانی انتخابات کی آزمائش سے دوچار ہوئی تھی۔ شدید انتخابی مہم نے اسے پھاڑ ڈالا تھا۔ انتخابی نتائج کو ایک بار پھر اپوزیشن مسترد کر چکی تھی۔ الزام اور دشنام سے بھرپور سیاست نے جیتنے اور ہارنے والوں کے درمیان ناقابل عبور فاصلے پیدا کر رکھے تھے۔ لیکن افواج پاکستان نے 6 ستمبر کی یاد نئے عزم کے ساتھ منانے کا فیصلہ کیا اور ”ہمیں پیار ہے پاکستان سے‘‘… کا نعرہ لگایا تو اپنے دروازے اور بانہیں سب کے لئے کھول دیں۔ پُر اعتماد سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ اور ان کے ”وزیر اطلاعات‘‘ میجر جنرل آصف غفور نے اتحاد اور یک جہتی کا پیغام اس طرح عام کیا کہ سب کھنچے چلے آئے۔ وزیر اعظم عمران خان مہمان خصوصی تھے اور سول ملٹری تعلقات کے ایک نئے منظر کی دلیل بن گئے تھے۔ ان کے ساتھ قائد حزب اختلاف شہباز شریف موجود تھے اور پیپلز پارٹی کا مستقبل بلاول بھٹو زرداری بھی۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر اپنے اداروں کے با وقار ترجمان کے طور پر نمایاں تھے۔ وزرائے کرام اور اپوزیشن کے شعلہ بیان بھی کم نہیں تھے۔ انتخابی تلخیاں پس پشت چلی گئی تھیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ نے غربت، جہالت اور بیماری کے خلاف جنگ کی اہمیت اجاگر کی تو وزیر اعظم عمران خان نے اپنی فی البدیہہ تقریر سے دلوں پر دستک دے ڈالی۔ ان کے الفاظ سننے والوں کو ایک دوسری دنیا میں لے گئے۔ مدینہ کی فلاحی ریاست کو انہوں نے اپنا نصب العین قرار دیا، جہاں ہر شخص کو بنیادی سہولتیں میسر ہوں، عام آدمی کے بچے بھی معیاری تعلیم حاصل کر سکیں، ان کے دکھوں کا علاج ہو سکے اور انہیں بھی پورے قد کا پاکستانی بنایا جا سکے۔ عمران خان نے تالیوں کی گونج میں واضح کیا کہ سول ملٹری تعلقات میں کوئی خرابی نہیں، یہ سب گھڑے ہوئے افسانے ہیں، ہم سب نے مل کر پاکستان کو آگے لے کر جانا ہے۔
آج چھ ستمبر ہی کے شہیدوں اور غازیوں کا نہیں، پاکستان پر قربان ہو جانے والے ہر شہید اور غازی کا دن تھا۔ جو جنگ بھی مسلط کی گئی اس کا سامنا کرنے والوں کو خراج عقیدت پیش کیا جا رہا تھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ‘ جو ہماری اپنی سرحدوں کے اندر لڑی گئی، بھی ہر شخص کو یاد تھی۔ ضرب عضب کے ساتھ ساتھ ردالفساد کی کامیابیوں کا تذکرہ بھی ہو رہا تھا۔ وزیر اعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ (ابتداء میں) ہماری نہیں تھی۔ ہمیں اس میں جھونک دیا گیا۔ ہمارے ہزاروں سپوت اس کا نشانہ بنے اور اربوں ڈالر کا نقصان معیشت کو اٹھانا پڑا۔ وزیر اعظم پوری شدت کے ساتھ کہہ رہے تھے کہ ہم آئندہ کسی دوسرے کی جنگ نہیں لڑیں گے۔ اس کے ساتھ ہی وہ پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کے لئے سراپا سپاس تھے کہ دنیا میں شاید ہی کسی جگہ دہشت گردی پر اس طرح قابو پایا گیا ہو، جس طرح کہ ہماری افواج نے کر دکھایا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پیغمبروں کے بعد شہید ہی بلند مقام ہیں۔ ہم انہیں یاد کرتے رہیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج ایک ادارہ ہے، جہاں میرٹ پر فیصلے ہوتے ہیں، اب ہمیں دوسرے اداروں کی بھی تعمیر کرنا ہو گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک سول سروس، پولیس، ایف آئی اے اور ایف بی آر میں اعتماد اور حوصلہ پیدا نہیں ہو گا، پاکستان اپنے مسائل حل نہیں کر سکے گا۔ کوتاہ نظر رہنمائوں نے اداروں کو غلام بنانے کو منزل ٹھہرا لیا تھا، سر اٹھا کر چلنا ہے تو غلامی کا یہ بوجھ اٹھا کر پھینکنا ہو گا۔ ایک دوسرے کو زیر کرنے کے ارادے باندھنے والو! اپنے آپ کو، اپنے ارادوں کو بدل ڈالو۔