منتخب کردہ کالم

BASE? …کون سی BASE ؟ اظہار الحق

یہ انگریزوں کا زمانہ تھا۔ اُن کے افسر‘ اُن کے مجسٹریٹ‘ اُن کے ڈپٹی کمشنر‘ ہمارے افسروں کی طرح صرف افسر نہیں تھے‘ کام کرتے تھے اور مسلسل کرتے تھے۔ صرف ہر ضلع کے گزٹ (GAZETTEER) ہی کو دیکھ لیجیے۔ تاریخ سے لے کر ایک ایک معاشرتی پہلو تک‘ تحقیق کی اور ضلع وار اس تحقیق کو کتابی شکل دی۔ گھوڑوں پر دور دراز علاقوں کا سفر کیا۔ انگریز ڈپٹی کمشنر کو معلوم تھا کہ اس کی قبر آسام کی دور افتادہ پہاڑیوں میں‘ یا نیپال کی گھاٹی میں‘ یا وانا اور ٹانک کی بے رحم وسعتوں میں یا رنگون کی اجنبی گلیوں میں بننی ہے۔ مگر وہ اپنے ملک کے لیے‘ اپنی ملکہ کے لیے‘ اپنے پرچم کے لیے‘ دیارِ غیر میں مرنے کے لیے تیار ہوتا تھا۔
ایسا ہی ایک ڈپٹی کمشنر تھا۔ گھوڑے پر جا رہا تھا۔ اپنے علاقے کا معائنہ کرنے! راستہ بھول گیا۔ شام پڑ گئی۔ ایک گوٹھ دکھائی دی۔ کسان نے اس کے گھوڑے کو چارہ ڈالا‘ اور مہمان کو چارپائی اور بستر پیش کیا۔ کسان کے پاس بہترین کھانا اُس دن باجرے کی روٹی تھی جو اس کی بیوی نے تنور پر پکائی تھی۔ کھیتوں کھلیانوں میں پلنے والے قارئین کو معلوم ہو گا کہ باجرے کی اور مکی کی بھی‘ جو روٹی تنور میں پکتی ہے سخت ہوتی ہے۔ روٹی کے اوپر کسان کی بیوی نے ساگ رکھا اور صاحب بہادر کو پیش –