“Core Constituency”….رئوف طاہر
جناب ایاز امیر کے بدھ کے کالم میں عمران خان کے لئے اور ہمارے ان دوستوں کے لئے بھی غور و فکر کا خاصا سامان ہے‘ جو اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ نواز شریف اور ان کے نام سے منسوب مسلم لیگ کا قصہ تمام ہوا۔ تحریک انصاف میں الیکٹ ایبلز کی موج در موج شمولیت اس کا تازہ ثبوت ہے۔ ایاز امیر جنرل ضیاء الحق کے دور سے مثال لائے‘ جب ایئر مارشل اصغر خاں کی ”وزارت عظمیٰ‘‘ سامنے کی حقیقت تھی۔ موٹے موٹے الفاظ میں نوشتۂ دیوار۔ تب خورشید محمود قصوری ایئر مارشل کے قریب ترین رفقا میں شمار ہوتے تھے۔ انہیں بھی اپنی وزارت خارجہ کا اتنا ہی یقین تھا جتنا خود ایئر مارشل کو اپنی وزارت عظمیٰ کا۔ لیکن خورشید قصوری کا معاملہ اعتزاز احسن جیسوں سے مختلف تھا، جو ہوا کے رخ کے ساتھ ادھر چلے آئے تھے۔ تحریک نظام مصطفیٰ کے دوران ادھر لاہور میں پہلی گولی چلی، ادھر اعتزاز نے بھٹو کے تمام احسانات سے آنکھیں چرا کر وقت کی مقبول ترین جماعت، تحریک استقلال میں پناہ لے لی۔ اس کے برعکس خورشید قصوری نے اپنے گرامی قدر والا میاں محمود علی قصوری کے ساتھ تحریک استقلال میں اس وقت شمولیت اختیار کی تھی جب یہ بھٹو کے بدترین غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف تھا۔ بڑے قصوری صاحب (مرحوم) کا شمار ملک کے دو تین سب سے بڑے قانون دانوں میں ہوتا۔ ساری عمر اپوزیشن کی سیاست کی۔ سیاسی مقدمات مفت لڑے۔ صوم و صلوٰۃ کے پابند محمود علی قصوری کی سیاست ترقی پسندانہ تھی۔ بھٹو نے پیپلز پارٹی بنائی تو اس میں شامل ہو گئے۔ ”نئے پاکستان‘‘ میں وہ بھٹو کے وزیر قانون تھے، لیکن فسطائی مزاج سے نباہ نہ کر سکے اور چند ماہ بعد ہی اپنی عزت اور اچھی شہرت سمیٹ کر اٹھ آئے اور ایئر مارشل کی رفاقت اختیار کر لی جو بھٹو فسطائیت کے خلاف توانا ترین آواز تھے۔ میاں محمد شریف کے جواں سال صاحبزادے نے بھی عملی سیاست کے لئے کانٹوں کی اسی وادی کا انتخاب کیا تھا۔
ایاز امیر نے درست لکھا کہ جناب ایئر مارشل کو اپنی وزارت عظمیٰ کا پختہ یقین تھا۔ انہوں نے غیر اعلانیہ شیڈو کیبنٹ بھی بنا لی تھی۔ خورشید قصوری خود کو وزیر خارجہ سمجھتے تھے تو لاہور کے معروف وکیل ڈاکٹر پرویز حسن، ایئر مارشل کی کابینہ کے وزیر قانون تھے۔ آل پاور فل جنرل ضیاء الحق بھی ایئر مارشل کو ان کی امانت، دیانت کی وجہ سے پسند کرتے، لیکن انہیں 1977 اور پھر 1979 میں اپنے اعلان کردہ عام انتخابات سے اس لئے راہ فرار اختیار کرنا پڑی کہ انتخابی میدان میں پیپلز پارٹی کا ڈرائونا سر ابھرتا نظر آ رہا تھا۔
عمران خان کو بھی اپنی وزارت عظمیٰ دیوار پر موٹے موٹے الفاظ میں لکھی نظر آ رہی ہے۔ وہ برسوں سے یہ خواب اپنی آنکھوں میں سجائے ہوئے ہیں۔ اسی خواب کی تعبیر کے لئے ڈکٹیٹر کے ریفرنڈم میں پر جوش حصہ بھی لیا۔ 2013ء میں تو انہیں وزارت عظمیٰ کی نیلم پری ایک ہاتھ کے فاصلے پر نظر آ رہی تھی۔ ایک ٹاک شو میں اینکر کو لکھ کر دینے میں بھی کوئی تائل نہ تھا کہ وہ پاکستان کے آئندہ وزیر اعظم ہیں۔ لندن میں اپنے بچوں سے بھی کہہ آئے تھے کہ آئندہ ملاقات اسلام آباد میں پرائم منسٹر ہائوس میں ہو گی۔ اب پھر سوتے جاگتے میں یہی خواب دیکھ رہے ہیں۔ جناب ایاز امیر کا انتخاب بھی وہی ہیں‘ لیکن سینئر تجزیہ کار اور منفرد اسلوب کے حامل کالم نگار جولائی میں انتخابات کے انعقاد کے حوالے سے پُر یقین اور پُر اعتماد نہیں۔
اور وہ اس کا سبب بھی جانتے ہیں۔ ممبئی حملے کے حوالے سے تازہ بیان سمیت معزول وزیر اعظم کی احمقانہ حکمت عملی کے بعد ایاز امیر کے خیال میں‘ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پارٹی میں گہری دراڑیں پڑ جاتیں اور مستقبل کے نقشہ نویسوں کے لئے نواز شریف سیاسی خطرہ نہ رہتے لیکن ایسا ابھی تک نہیں ہوا۔ فعلی بٹیرے چھوڑ کر جا رہے ہیں لیکن نواز شریف کا کلیدی حلقہ (Core Constituency) ان نامساعد حالات میں بھی ساتھ کھڑا ہے… سیاسی انجینئرنگ نون لیگ کے خلاف ہو رہی ہے‘ لیکن ایسی مشقوں کا ایک حد تک ہی اثر ہوتا ہے۔ یہ خطرہ یکسر مسترد نہیں کیا جا سکتا کہ جب الیکشن کا میدان سجے گا، نون لیگ بھرپور انداز سے اس میں اترے گی، یہ خطرہ کیا سیاسی انجینئرنگ کرنے والے مول لے سکتے ہیں؟ درج بالا خطرات متعلقہ ذہنوں میں موجود رہے تو کیا انتخابات کا رسک لیا جا سکے گا؟
”کور کانسٹی چیونسی‘‘ والی یہی بات گیلپ پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر اعجاز شفیع گیلانی نے بھی گزشتہ دنوں، اپنے طویل ٹی وی انٹرویو میں کہی۔ گزشتہ آٹھ انتخابات کے اعداد و شمار کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اگر ملک کا ”انتظامی حصہ‘‘ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی کا بازو مروڑ کر انتخابی نتائج کو متاثر کر سکتا ہے تو اسے 2002ء اور 2008ء سے سبق سیکھنا چاہئے۔ ووٹر کسی ایک واقعہ یا ایک بیان سے اپنی رائے نہیں بدلتے۔ پاکستان انتخابی سیاست کی بلوغت کے نئے مرحلے میں ہے۔
جنوبی پنجاب کے شجاع آباد کا راجستھانی حلوائی بھی اسی ”کور کانسٹی چیونسی‘‘ میں شامل ہے جس نے حبیب اکرم کے منہ میں تازہ لڈو ٹھونس دیا اور بولا ”نواز شریف کی جیت کی خوشی میں کھلا رہا ہوں۔ یہ شہر نواز شریف کا ہے، ہم بھی نواز شریف کے ہیں، اگلی حکومت بھی نواز شریف کی ہو گی‘‘۔ اور وہ موٹر سائیکل رکشہ چلانے بھی جس کا کہنا تھا، ”ووٹ تو میں نواز شریف کو دوں گا۔ بس ڈر یہ ہے کہ میرا لیڈر الیکشن جیت کر سارے اداروں سے لڑائی نہ شروع کر دے‘‘۔ اور سانگلہ ہل کے بازار میں وہ عینکیں بیچنے والا جو نواز شریف کو ووٹ دینے کا ارادہ کئے ہوئے تھا اور حبیب اکرم کی اس بات پر کہ عدالت نے تو نواز شریف کو نا اہل کر دیا ہے اس نے ٹھیٹھ پنجابی لہجے میں جواب دیا ”دیکھو بھائی عدالت کی بات تو سب کو ماننی پڑے گی اور ووٹ کی بات بھی سب کو ماننی پڑے گی‘‘۔ تو کیا یہ عام آدمی د’ووٹ کو عزت دو‘‘ کی بات دہرا رہا تھا۔
”ووٹ کو عزت دو‘‘ کا یہی نعرہ گزشتہ شام سابق ریاست بہاولپور کے شہر چشتیاں میں بھی گونجا اور خوب گونجا، (جنوبی پنجاب صوبہ والے اسے اپنے صوبے میں شمار کرتے ہیں‘ جبکہ اس کے متوازی یہاں ”بہاولپور صوبہ‘‘ کی تحریک بھی (1970ء سے) موجود ہے)۔ یہ میرا علاقہ ہے۔ امرتسر سے ہجرت کرکے میرے بزرگوں نے چشتیاں سے کوئی تیس کلومیٹر دور ہارون آباد کو مسکن بنایا۔ میرا جم پل وہیں کا ہے۔ اس روز پانچواں روزہ تھا۔ چشتیاں میں بلا کی گرمی تھی۔ افطار سے ڈیڑھ دو گھنٹے پہلے اضمحلال کی کیفیت ہوتی ہے‘ لیکن نواز شریف (اور مریم) کے جلسے میں جوش و خروش کا وہی عالم تھا‘ جو 28 جولائی کے فیصلے کے بعد جی ٹی روڈ سے شروع ہونے والی رابطۂ عوام مہم میں ایک دنیا دیکھتی آ رہی ہے۔ چشتیاں کا ایم این اے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کے راستے بنی گالہ پہنچ چکا، لیکن یہاں کا ووٹر اب بھی نواز شریف کے ساتھ ہے۔ سخت گرمی اور روزے کی حالت میں بھی وہ اپنے لیڈر اور اس کی پارٹی سے اظہار وفا کے لئے موجود تھا۔ اسی سے ملتا جلتا منظر اگلے روز اٹک میں بھی دیکھنے کو ملا۔
”ووٹ کو عزت دو‘‘ کے سیاسی بیانیے کے ساتھ ، مسلم لیگ (ن) کا ایک دوسرا بیانیہ بھی ہے، تعمیر و ترقی کا بیانہ اور اس حوالے سے پنجاب حکومت کی کارکردگی (وفاقی حکومت کی کارکردگی بھی اپنی جگہ)۔ اسی ہفتے ایک مؤقر انگریزی روزنامے میں عباس ناصر کا آرٹیکل بھی ہمارے ایاز امیر کے کالم کی طرح چشم کشا تھا۔ عباس ناصر نے اس کے لیے ‘سٹریٹ وزڈم‘‘ کے الفاظ استعمال کئے۔ اس کا مکالمہ راولپنڈی میں ایک رینٹ اے کار ڈرائیور کے ساتھ تھا‘ جس کا کہنا تھا، کرپشن کے یہ تمام کیس 1980ء سے 1990ء کے دور کے ہیں‘ جب ”شریف‘‘ ان کی گود میں بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ کیس اب منظر عام پر آئے ہیں جب اس نے انہیں آنکھیں دکھانا شروع کیں۔ اب اس نے ایک اور بات کی کہ راولپنڈی سے اسلام آباد اپنے کام کی جگہ پر پہنچنے کے لئے ایک طرف کا کرایہ 60 روپے تھا (دو طرف کا ایک سو بیس روپے) اب میٹرو بس پر میں صرف 40 روپے میں آ جا سکتا ہوں۔ ٹی وی چینل صبح و شام جو بھی کہیں، آپ بتائیں، میرا ووٹ کس کے لئے ہونا چاہئے اور اس کے ساتھ ہی اس نے بتایا کہ اس کے گھر میں سات ووٹ ہیں۔ یہی ”کور کانسٹی چیونسی‘‘ اصل مسئلہ ہے