ٹی وی تجزیہ کار پی جے میر نے پچھلے دنوں ایک بڑا معنی خیز تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ قومی احتساب بیورو کے انگریزی نام یعنی نیب (NAB)کا مخفف دراصل دو وزرائے اعظم اور ایک صدر یعنی نواز شریف و بے نظیر بھٹو اور آصف زرداری کے احتساب کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ ان تینوں نے ہی نیب کو ایک مذاق بنائے رکھا تھا‘ اور اس ادارے کو یکے بعد دیگر ے ان کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف انتقامی کارروائیوں کے ذریعے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے؛; تاہم آج حالات موجودہ وزیر اعظم کے خلاف ہو چکے ہیں۔ پچھلے دنوں وزیر اعظم صاحب نے کہا کہ نیب سرکاری افسروں کو ہراساں کر رہا ہے، اور اسی لئے وہ (یعنی بیوروکریٹس) کوئی فیصلہ کرنے سے (یعنی مختلف منصوبوں سے متعلقہ فائلوں پر دستخط کرنے سے) ڈرتے ہیں۔ نیب سرکاری افسروں کو خوفزدہ کئے ہوئے ہے اور انہیں اپنے روزمرّہ کے کاموں کی انجام دہی سے روک رہا ہے۔ وزیر اعظم صاحب نے مزید یہ بھی کہا کہ نیب کے اہلکار کرپشن یا دیگر الزامات کی کوئی تصدیق کئے بغیر ــ ”معصوم افراد‘‘ کے گھروں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ سب کہتے ہوئے وزیر اعظم کے چہرے پر ناراضگی، خفگی اور برانگیختگی کے آثار واضح تھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ نیب کے موجود چیئرمین میجر (ر) چودھری قمر زمان کی تقرری خود وزیر اعظم صاحب نے اس وقت کی تھی جب سپریم کورٹ کے حکم پر اس وقت کے نیب چیئرمین فصیح بخاری کو برطرف کر دیا گیا تھا۔ فصیح بخاری کی تقرری آصف زرداری نے کی تھی۔
آج چودھری قمر زمان کے محسن یعنی وزیر اعظم نواز شریف پوری دنیا کے سامنے ان کے خلاف انگلی اٹھاتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر انہوں نے شریف برادران کے چنے ہوئے ”معصوم و بے گناہ‘‘ بیوروکریٹس کو ہراساں کرنا بند نہیں کیا تو وہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔ وزیر اعظم کہتے ہیں کہ انہوں نے اس جانب ایک دو بار نیب کے چیئرمین کو توجہ دلائی ہے، انہیں کوئی قدم اٹھانا ہی ہوگا بصورتِ دیگر حکومت اس ضمن میں قانونی کارروائی کرے گی۔ کیا چودھری قمر زمان کا بھی وہی انجا م ہو گا‘ جو ان کے پیش رو یعنی فصیح بخاری کا ہوا تھا؟ کیا اس بار سپریم کورٹ کی بجائے وزیر اعظم صاحب اپنے ہی مقرر کردہ چیئرمین کو گھر بھیج دیں گے؟ ابھی پچھلے ہی سال جب وزیر اعظم صاحب کو جی ایچ کیو والوں کی جانب سے مسائل کا سامنا تھا‘ تو نیب نے میاں نواز شریف کی قامت کو بڑھانے اور فوجیوں کا قد گھٹانے کے لئے بڑی چالاکی سے ایک چا ل چلی تھی۔ اس پہ بھی ہم نے ایک کالم لکھا تھا، مختصراً ایک بار پھر وہی باتیں ہم قارئین کو یاد دلانا چاہیں گے۔ پچھلے سال یکدم ہی کہیں سے ڈاکٹر شفیق الرحمان نامی ایک شخص نے آکر سپریم کورٹ میں ایک درخواست جمع کر دی تھی۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ نیب نے سپریم کورٹ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس کی جانب سے ڈیڑھ سو بڑے سکینڈلوں کی جو فہرست عدالتِ عظمیٰ میں پیش کی گئی‘ اس میں نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کا نام کرپٹ لوگوں میں شامل نہیں بتایا گیا ہے۔ انٹرنیٹ پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں کہ آسٹریلوی حکومت نے ایک کمپنی کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔ یہ کمپنی پراپرٹی ٹائیکون نے سابق آرمی چیف جنر ل کیانی کے بھائیوں کے ساتھ مل کر شروع کی تھی۔ اس کا مقصد رہائشی منصوبوں کے لئے بڑی بڑی زمینیں حاصل کرنا تھا۔ آسٹریلوی حکومت کے لئے اچنبھے کی بات یہ تھی کہ اس سارے معاملے میں فریقوں کے مابین پیسے کے لین دین کے شواہد کہیں نظر نہیں آرہے تھے۔ اسی لئے انہوں نے ہمارے دفترِ خارجہ سے رابطہ کر لیا تھا۔ یہ فوجیوں کو شرمسار کرنے کا ایک بہترین موقع سمجھا گیا تھا‘ اسی لئے چودھری قمر زمان کو ہدایت دی گئی کہ وہ پنڈی جا کر فوجیوں کو ان کے اس سابق سربراہ یعنی جنرل کیانی کے کرتوتوں کے بارے میں ایک بریفنگ دیں۔ موجودہ حکمرانوں نے بھی در اصل وہی چال آزمانے کی کوشش کی‘ جو زرداری صاحب جنرل کیانی کے ساتھ آزماتے رہے تھے۔ زرداریصاحب ان کے ساتھ ہر ملاقات کا
آغاز ان جملوں سے کرتے تھے ”اور سنائیں جنرل صاحب، بھائی ٹھیک ہیں؟ کام ٹھیک چل رہا ہے؟‘‘ یہ سنتے ہی ہاتھ باندھے بیٹھے ان کے فوجی مہمان اپنے خول میں سمٹ کر رہ جاتے۔ ظاہر ہے کہ زرداری صاحب کے ان الفاظ میں یہ مخفی سی دھمکی ہوتی تھی کہ سب کرتوتوں کی تفصیل ان کے پاس موجود ہے‘ اور اگر ان سے پردہ اٹھا لیا گیا تو فوجیوں کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
موجودہ حکمرانوں نے سوچا کہ یہ چال حالیہ فوجی سیٹ پر بھی آزما لی جائے؛ تاہم پنڈی کے بڑے آدمی کے سامنے جب وہ فائل پیش کی گئی تو انہوں نے نیب کے سربراہ کو کہہ دیا کہ ان کا وقت ضائع کرنے کی بجائے بہتر ہو گا کہ وہ اکاؤنٹنٹ جنرل سے مل لیں۔ اکاؤنٹنٹ جنرل صاحب سے جب رابطہ ہوا تو انہوں نے نیب کے سربراہ کو خود ان کی اپنی سرگرمیوں اور متعدد وفاقی وزرا، بیوروکریٹس اور پولیس افسران کی سرگرمیوں کے حوالے سے اپنے فرائض کی ایمانداری سے بجا آوری کی اہمیت کے بارے میں پورا ایک لیکچر دے ڈالا۔ جب نیب کے سربراہ نے حکمران اعظم کو آگاہ کیا کہ ان کے ایلچی کے طور پر ان سے کیا سلوک کیا گیا ہے‘ تو انہیں فوری ہدایت دے دی گئی کہ ان کے اور ان کے بھائی یعنی پنجاب کے حکمران اعلیٰ کے خلاف جتنے بھی مقدمات ہیں‘ وہ نمٹا دیے جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ
کے سامنے ڈیڑھ سو سابق اور حالیہ وی وی آئی پیز کے ناموں پر مشتمل جو ناقص فہرست پیش کی گئی۔ ان میں زیادہ تر مقدمات پر یا تو کام جاری تھا‘ یا وہ نمٹائے یعنی ختم کئے جا چکے تھے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں قائم دو رکنی بینچ نیب کی جانب سے اس ناقص فہرست کے پیش کئے جانے پر قطعی خو ش نہیں ہوا؛ چنانچہ بعد میں یہ فہرست ترامیم کے ساتھ دوبارہ پیش کر دی گئی۔ یہ سب کچھ سپریم کورٹ کو کنفیوز کرنے کے لئے جان بوجھ کر کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق ان ڈیڑھ سو میں سے پچاس مقدمات مالی بدعنوانیوں، اراضیوں کی خرید و فروخت میں بے قاعدگیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال سے متعلق تھے جبکہ اکہتر ایسے معاملات تھے جن کے حوالے سے تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس فہرست میں ہمارے بڑے بڑے سیاستدانوں، بیوروکریٹوں اور بزنس مینوں کے نام شامل ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف، پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف، سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، چودھری شجاعت اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے نام بھی اس فہرست میں درج ہیں۔ ڈاکٹر ایم شفیق الرحمان صاحب نے سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں نیب پر جوابی الزامات لگاتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ احتساب سے بچنے کے لئے نیب نے اصل مجرموں کے نام عمداً چھپائے ہیں۔ ”اس قسم کا اخفا ہمیشہ بدنیتی پر مبنی ہوتا ہے اور اسے آسانی سے انصاف کے راستے میں رکاوٹ سمجھا جا سکتا ہے‘‘۔
یہ سب دیکھ کر تو واقعی یہی معلوم ہوتا ہے کہ NAB دراصل نواز، آصف اور بے نظیر ہی کا مخفف ہے