Summer of Our Discontent…..رؤف کلاسرا
مان لیتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی بھی فرشتہ نہیں۔ میں تو ہرگز نہیں کیونکہ میرے گناہوں کی فہرست خاصی طویل ہے‘ جس پر میں شرمندہ رہتا ہوں۔ کچھ گناہ ہیں جو خدا اور بندے کے درمیان ہیں ۔ ان کا پردہ خدا نے رکھا ہوا ہے۔انسان کو بھی یہی کہا گیا ہے کہ دوسروں کے بارے تجسس میں نہ رہا کرے ۔ بدگمانی نہ کرے ۔ سنی سنائی باتوں پر یقین نہ کرے۔ کسی کے گھر بلااجازت داخل نہیں ہوسکتے۔ اسلام میںجتنا زور انسان کی نجی زندگی پر دیا گیا ہے شاید کسی اور مذہب میں نہیں ۔ میں عالم ہرگز نہیں لیکن جو تھوڑا بہت پڑھا ہے اس سے یہی سمجھا ہوں کہ خدا انسان کو مثبت سوچنے کا حکم دیتا ہے۔ اسی لیے انسانوں کے حقوق کو اللہ کے حقوق پر برتری دی گئی ہے۔
جب خدا کسی کو بڑا عہدہ عطا کرتا ہے تو پھر اس پر ذمہ داری بھی زیادہ ڈال دیتا ہے۔ اسی لیے حضرت عمرؓ کا یہ قول آج تک دہرایا جاتا ہے کہ اگر فرات یا دجلہ کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مرگیا تو قیامت کے روز عمرؓ سے سوال ہوگا ۔ حکمران کے احتساب پر بھی حضرت عمرؓ کی مثال دی جاتی ہے جب ان سے سرعام پوچھ لیا گیاتھا کہ ان کے پاس دوسرا کرتہ کہاں سے آیا؟ ایک عام انسان اور حکمران کے لیے اخلاقیات کے پیمانے مختلف ہوتے ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ بڑے لوگ‘ جو ہم پر حکمران ہیں‘ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ ہم سے بہتر انسان ثابت ہوں گے۔ کروڑوں لوگوں میں سے ایک ہی بادشاہ کیوں ہے ؟ اس لیے کہ ہم اسے خود سے بہتر سمجھتے ہیں۔ اپنے کردار سے بہتر کردار کی اس سے توقع رکھتے ہیں۔ اگر میرے حکمران یا پبلک آفس ہولڈرز نے وہی حرکتیں کرنی ہیں جو میں کرتا ہوں‘ ان کی اخلاقیات بھی اتنی بری ہے جتنی میری بری ہے‘ ان کے اور میرے کردار میں کوئی فرق نہیں تو پھر انہیں حق نہیں کہ وہ میری تقدیر کے فیصلے کریں۔ اگر انہوں نے یہ کام کرنا ہے تو وہ بہتر عہدے پر بیٹھنے کے ہرگز حقدار نہیں۔ پھر وہ عوام کے بادشاہ نہیں بن سکتے۔
کسی انسان کی دوسرے پر برتری حاصل کرنے کی دو تین شکلیں ہوسکتی ہیں۔ اللہ نے اسے زیادہ ذہین بنایا ہے‘ اسے زیادہ خوبصورت بنایا ہے یا پھراسے ایسے کاموں کے لیے پیدا کیا ہے جو عام لوگ نہیں کرسکتے۔ تو اگر وہ عام لوگوں کی طرح عام حرکتیں کرنے پر اتر آئے تو پھر بات نہیں بنتی ۔ اگر ایک عام آدمی کو یہ لگے کہ اس کے اوپر بیٹھا بندہ اس سے بہتر نہیں ہے تو وہ اس کا حکم نہیں مانے گا۔ اس طرح معاشرہ آگے نہیں بڑھ سکتا ۔ معاشرے کے لیے رول ماڈل ختم ہوجائیں گے اور ہر معاشرے کو اپنی بقا اور پرورش کے لیے رول ماڈلز کی ضرورت ہوتی ہے چاہے یہ رول ماڈلز سیاستدان ہوں‘ بابوز‘ کھلاڑی یا پترکار ۔ ہر بندے میں انا ہوتی ہے۔ ممکن ہے کسی میں زیادہ اور کسی میں کم ہو لیکن ہوتی ضرور ہے۔ کوئی بندہ خود سے دوسرے کو بہتر نہیں سمجھتا ۔ اسے آپ نرگیست پسندی کہہ لیں۔ اپنی ذات سے محبت انسان کو دوسرے کو اپنے سے بہتر نہیں سمجھنے دیتی۔ ہر انسان کا پہلا ہیرو اور شہزادہ وہ خود ہوتا ہے۔ باقی لوگ دھیرے دھیرے اس فہرست میں شامل ہونا شروع ہوتے ہیں‘ لیکن کیا کریں انسان کا پہلا اور آخری ہیرو مرتے دم تک وہ خود ہی رہتا ہے‘ چاہے وہ اس کا اظہار کرے یا نہ کرے لیکن اسے علم ہے کہ وہی اصل ہیرو ہے۔ خود کو ہیرو کے درجے سے ہٹا کر کسی اور انسان کو اس درجے پر فائز کرنا آسان نہیں ۔ ایک جنگ خود سے لڑنی پڑتی ہے۔ خود کو قائل کرنا پڑتا ہے کہ فلاں بندہ‘ رائٹر‘ کالم نگار‘ ایکٹر‘ وزیراعظم‘ سیاستدان‘ وزیر‘ سرکاری افسر‘ سائنسدان‘ ادیب‘ شاعر مجھ سے زیادہ قابل اور بہتر انسان ہے اوراس میں فلاں فلاں خوبیاں ہیں جو مجھ میں نہیں ۔یوں بڑے عرصے تک وہ اس شخصیت کو مانیٹر کرتا ہے تاکہ اس کی غلطیاں ڈھونڈ سکے اور خود کو بتا سکے کہ ایسے ہی اس بندے سے متاثر ہوگیا تھا ورنہ اس میں کوئی بات نہ تھی ۔ وہ بھی عام سا انسان ہے جس میں وہ سب خرابیاں موجود ہیں جو اس میں پہلے سے پائی جاتی ہیں‘ لہٰذا وہ ایسے ہی خواہ مخواہ اس سے متاثر ہوگیا تھا ۔
یوں ہر انسان کو اپنے سے بڑے بندے کے سکینڈلز یا اس کے اخلاقیات سے گرنے پر دلی مسرت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر انسان جو بڑے عہدے پر فائز ہے جب اس کا عام سا سکینڈل بھی سامنے آتا ہے تو پورے معاشرے پر اثرات ہوتے ہیں۔ وہ کسی سے تھوڑا سا بدتمیزی سے پیش آئے یا ہاتھ بھی اچھے انداز میں نہ ملائے تو رولا پڑ جاتا ہے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ ایک تو سب یہ فرض کیے بیٹھے ہوتے ہیں کہ وہ بندہ ان سے بہتر انسان ہے‘ وہ ایسا کام نہیں کرتا جو وہ سب کرتے ہیں۔ دوسرے اس بندے کے نیچے گرنے سے سب کو کمینی خوشی ملتی ہے کہ خواہ مخواہ ہم اس بندے سے متاثر ہوئے بیٹھے تھے۔ وہ بھی ہماری طرح ہی نکلا ۔ یوں یہ احساس ہمیں تسلی دیتا ہے کہ ہم سے وہ انسان بہتر نہیں ۔ سکینڈل پھیلتا جاتا ہے کیونکہ ہر بندے کو اس سے دلی تسکین ملتی ہے‘ جبکہ دوسری طرف جو بندہ اعلیٰ عہدے پر فائز ہوجاتا ہے تو وہ خوش قسمتی سے زیادہ اپنی قابلیت کو داد دیتا ہے کہ میں دوسروں سے بہتر تھا لہٰذا یہاں بیٹھا ہوں۔ مجھ میں اللہ نے کچھ خاص خوبیاں پیدا کردی ہیں جو دوسروں کے پاس نہیں ہیں‘ لہٰذا میں عام انسان نہیں ۔ میں بہت خوش قسمت انسان ہوں اور ہمیشہ ایسے رہوں گا ۔ مجھے یہ استحقاق مل گیا ہے کہ میں جو چاہے کرسکتا ہوں۔ میرا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔ میں قتل کروں تو بھی مسکرا کر نکل جاؤں گا۔ ہمیشہ بڑے آدمی‘ جن کا سکینڈل بنتا ہے‘ وہ بے احتیاطی کے ہاتھوں مار کھاتے ہیں ۔ انہیں ان کا اعتماد لے ڈوبتا ہے۔
بل کلنٹن جیسا صدر بھی اسی اعتماد کے ہاتھوں مارا جاتا ہے کہ اس کا خیال تھا یہ معمولی سی بات ہے بھلا کس کو پتہ چلے گا۔ وہ ملک کا صدر ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے۔ فرانس کا اعلیٰ عہدیدار جو ورلڈ بینک کا صدر بننے والا تھا وہ بھی امریکی ہوٹل میں ایک ویٹریس کے ساتھ چھیڑ خانی پر اس عہدے سے اسی لیے ہاتھ دھو بیٹھا تھا کہ اس کا خیال تھا یہ معمولی سی بات ہے۔ ویٹریس اس کا کیا بگاڑ سکتی ہے‘ جیسے یہاں سوچا گیا کہ ایک بے بس خاتون کیا کر لے گی۔
ہر وہ بندہ جو سکینڈلز میں پھنس جاتا ہے وہ ہمیشہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ جیسے زندگی میں کامیابی سے اوپر آیا ہے‘ ایسے ہی رہے گا۔ تقدیر اسے کبھی دھوکہ نہیں دے گی۔ ان اعلیٰ عہدوں پر بیٹھے لوگوں کو شاید احساس نہیں ہوتا ہوگا کہ ان پر ہزاروں آنکھیں ہیں۔ جب آپ طاقتور لوگوں کے خلاف ایکشن لے رہے ہوں تو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے۔بڑی عمر میں بھی اگر کوئی احتیاط کے معنی نہیں سمجھتاتو پھر ایسے بندے کے لیے دعا ہی کی جاسکتی ہے ۔
بڑے لوگوں کو شاید یہ احساس نہ ہو کہ ان کی اس طرح کی حرکتوں سے ملک کے کلچر کا کتنا نقصان ہوتا ہے۔ پہلے ہی اس ملک میں بڑے لوگوں کے اعمال کا احتساب نہیں ہوتا‘ ہونے لگے تو سب چور ڈاکو مل کر شور مچا دیتے ہیں۔ لوگوں کا اعتماد پہلے ہی اداروں‘ سیاستدانوں‘ حکمرانوں اور معاشرے کے طاقتور طبقات سے اٹھ چکا ہے۔ رہی سہی کسر بے احتیاطی پوری کر دے گی۔
بڑے عرصے بعد لوگوں کا اعتماد اداروں پر بحال ہوا تھا۔ بڑے بڑے لوگوں کی چیخیں سن کر لوگ خوش ہورہے تھے ۔ طاقتور پہلی دفعہ نرغے میں آئے تھے۔ امید کی کچھ کرنیں پھوٹی تھیں ‘ مگر سب کچھ ایک ہی ہلے میں زمین بوس ہوگیا ہے۔ ہم دوبارہ وہیں‘ اسی کنویں میں جا گرے ہیں جہاں پہلے پڑے تھے۔ ایک بے احتیاطی نے سب کچھ خراب کردیا ہے۔ جب کہ پاکستان کی حالت زار پر چارلس ڈکنز کا ناول A TALE OF TWO CITIES یاد آگیا:
It was the best of times,
it was the worst of times,
it was the age of wisdom,
it was the age of foolishness,