منتخب کردہ کالم

صدر اردوان کا دورۂ پاکستان اور ’’تختِ لاہور‘‘ .. رئوف طاہر

”یُو ٹرن خان‘‘ کی پھبتی کسنے والے ملاحظہ فرمائیں، خان نے اس بار یُو ٹرن نہیں لیا‘ بلکہ پارلیمنٹ سے صدر طیب اردوان کے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے پر ڈٹا رہا، اگرچہ اسلام آباد میں ترک سفیر نے فیس سیونگ کا اہتمام کر دیا تھا۔ برادر ملک ترکی کے صدر کے دورۂ پاکستان کا شیڈول مرتب ہوا‘ تو اس میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب بھی شامل تھا۔ وہ غیر ملکی سربراہوں میں پہلے تھے‘ جنہیں پاکستانی پارلیمنٹ سے تیسری بار خطاب کا اعزاز حاصل ہو رہا تھا۔ اس سے پہلے دو بار ان کا خطاب وزیرِ اعظم کے طور پر تھا۔ خان نے پاناما کیس کے فیصلے تک پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ اب صدر اردوان خطاب کے لئے آ رہے تھے‘ تو خان نے اس میں بھی شرکت سے انکار کر دیا۔ ادھر پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ حیران تھے کہ یہ نہایت اہم فیصلہ کب اور کہاں ہوا؟ ویسے تو کور کمیٹی وغیرہ کا جو اجلاس بلایا جاتا ہے‘ اس میں بھی آخری فیصلہ خان ہی کا ہوتا ہے۔ کبھی کبھار تو اختلاف رائے کرنے والوں کو ڈانٹ بھی پڑ جاتی ہے۔ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے اجلاس کا بائیکاٹ زیرِ غور آیا‘ تو کے پی کے سے نوجوان رکنِ قومی اسمبلی علی احمد خان کو اچھی خاصی ڈانٹ پڑ گئی‘ اور خان نے اسے ن لیگ جوائن کرنے کا ”مشورہ‘‘ تک دے دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اسی طرح کے ایک اجلاس میں شاہ محمود قریشی کو بھی خان نے اسی طرح کا مشورہ دے دیا تھا؛ البتہ ملتان کے سجادہ نشین کے لئے یہ قدرے نرم لہجے میں تھا۔
کے پی کے میں خان کی اتحادی جماعتِ اسلامی‘ اور شیرپاؤ کی قومی وطن پارٹی بھی صدر اردوان کے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے سے متفق نہ تھیں۔ سراج الحق نے تو صدر اردوان کی پاکستان سے محبت کے حوالے سے یہ بھی یاد دلایا کہ گزشتہ دنوں بنگلہ دیش میں پاکستان سے محبت کے جرم میں مولانا مطیع الرحمٰن کی پھانسی پر ترک صدر کا ردِعمل پاکستان سے بڑھ کر تھا‘ جب انہوں نے ڈھاکہ سے ترک سفیر کو واپس بلا لیا۔ لیکن خان کسی کی کب سنتا ہے۔ وہ اس حوالے سے کسی کے ”مان‘‘ کی بھی پروا نہیں کرتا۔ 2 نومبر کے اسلام آباد کے لاک ڈاؤن سے پہلے پی ٹی آئی نے اسلام آباد میں ورکرز کنونشن پر پولیس کے کریک ڈاؤن کے خلاف 28 اکتوبر‘ جمعہ کے روز‘ ملک گیر یومِ احتجاج کا اعلان کیا تھا۔ حکومت اس بار کوئی نرمی برتنے، کوئی ڈھیل دینے پر آمادہ نہ تھی۔ پُرامن جلسے جلوس اور دھرنا سیاسی جماعتوں سمیت سوسائٹی کے کسی بھی طبقے کا جمہوری حق ہے‘ لیکن یہاں تو وفاقی دارالحکومت کو بند کرنے اور حکومت کو کام نہ کرنے دینے کا اعلان تھا۔ شیخ رشید نے نمازِ جمعہ کے بعد راولپنڈی کے کمیٹی چوک میں احتجاج کا اعلان کر رکھا تھا۔ خان کا کہنا تھا اور شیخ رشید سے وعدہ بھی کہ وہ اس میں ضرور شریک ہو گا۔ شیخ پہنچ گیا‘ لیکن خان بنی گالا کی پہاڑی سے نیچے نہ اترا۔ شیخ میڈیا کے روبرو محبت بھرا گِلہ کرگزرا: خان کو آنا چاہیے تھا، وہ 13 اگست کو بھی نہیں آیا تھا۔ خان اسے مسکرا کر ٹال بھی سکتا تھا، لیکن اس نے جواب دینا ضروری سمجھا۔ کسی لاگ لپیٹ اور تکلف کے بغیر اس کا جواب تھا: میں کپتان ہوں اور کپتان اپنے فیصلے خود کرتا ہے یہ نہیں ہو سکتا کہ میں لوگوں کے کہنے پر ادھر ادھر بھاگا پھروں۔
صدر طیب اردوان کے خطاب کے بائیکاٹ کا فیصلہ ایک مشکل فیصلہ تھا، جس پر ترکی سے محبت کرنے والے پاکستانی عوام کی جانب سے ناپسندیدگی کا اظہار فطری تھا۔ Damage کنٹرول کے لئے شاہ محمود قریشی کی زیرِ قیادت پی ٹی آئی کے وفد کی ترک سفیر سے ملاقات کا فیصلہ کیا گیا‘ جس میں بائیکاٹ کے فیصلے کی وضاحت کے ساتھ اس خواہش کا اظہار بھی تھا کہ مہمان صدر تحریک انصاف کے سربراہ سے علیحدہ ملاقات کر لیں۔ مہمان سربراہ حزبِ اختلاف والوں سے ملاقات بھی کر لیتے ہیں۔ ہمیں یاد ہے، وزیرِ اعظم نواز شریف جنوری 1998ء میں سہ ملکی سربراہ کانفرنس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ گئے‘ تو ان سے ملاقات کے لئے ہوٹل سونارگاؤں آنے والوں میں اپوزیشن لیڈر بیگم خالدہ ضیا بھی تھیں (اس سہ ملکی کانفرنس میں شرکت کے لئے انڈیا سے قائم مقام وزیرِ اعظم آئی کے گجرال آئے تھے) لیکن اب پاکستان میں معاملہ مختلف تھا۔ خان اپنے ملک کے وزیرِ اعظم کو وزیرِ اعظم تسلیم کرنے سے انکاری تھا۔ ایسے میں ترک صدر کی اس سے ملاقات مناسب نہ ہوتی۔ شاہ محمود قریشی کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی ترک سفیر کی اس ”خواہش‘‘ اور ”مشورے‘‘ پر غور کرے گی کہ مہمان صدر کے خطاب کے بائیکاٹ کے فیصلے پر نظرِثانی کی جائے‘ ورنہ دنیا کو بہت غلط پیغام جائے گا۔
شرکت کے حق میں کئی دلائل بھی تھے۔ یہ دورہ صدرِ پاکستان کے دعوت پر تھا‘ جو وہ اپنے دورہء ترکی کے دوران دے آئے تھے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس میں نواز شریف کی حیثیت بھی دیگر 446 ارکان جیسی تھی۔ اجلاس کی صدارت نواز شریف نے نہیں، سپیکر ایاز صادق کو کرنا تھی۔ سراج الحق تو یہ تجویز بھی دے گزرے کہ عمران خان صدر اردوان کے خطاب کے لئے آئیں، اور اگر نواز شریف تقریر کریں تو اٹھ کر چلے جائیں، لیکن خان کے لئے کوئی بھی دلیل بے اثر تھی۔
بدھ کی شام ایوانِ صدر میں اور اس سے اگلے روز پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں صدر اردوان کا مسئلہ کشمیر پر مؤقف اہلِ پاکستان اور کشمیری عوام کے جذبات و خواہشات کا بھرپور اظہار تھا۔ کسی سفارتی لاگ لپیٹ کے بغیر وہ پاکستانی اور کشمیری عوام کے مؤقف کی واشگاف تائید کر رہے تھے (اس پر سرحد کے اس پار مودی اینڈ کمپنی پر کیا گزری ہو گی؟) قومی مفادات اور خارجہ معاملات کو داخلی سیاست سے الگ رکھنے کی حکمتِ عملی بہت قدیم ہے۔ سقوطِ مشرقی پاکستان کے بعد، نئے پاکستان کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو اندرا گاندھی سے مذاکرات کے لئے روانہ ہوئے تو ان کے سخت ترین مخالف جماعت اسلامی کے امیر میاں طفیل محمد بھی انہیں الوداع کہنے کے لئے لاہور کے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔ لیکن خان کو مسئلہ کشمیر پر پارلیمنٹ کے اجلاس کے بائیکاٹ میں بھی عار نہیں ہوتی۔
ترک صدر اسلام آباد اترے تو ان کے خیر مقدم کے لئے وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی موجودگی کو بھی ناقدین نے ہدفِ تنقید بنایا۔ ان کے بقول یہ دو ملکوں کی بجائے دو خاندانوں کا فیملی افیئر لگتا تھا، ورنہ دوسرے وزرائے اعلیٰ کو بھی بلایا جاتا۔ سینٹر نہال ہاشمی وضاحت کر چکے کہ وزیرِ اعلیٰ سندھ نے پہلے سے طے شدہ دبئی روانگی کے باعث معذرت بھجوا دی تھی۔ وزیرِ اعلیٰ بلوچستان کا جہاز لیٹ ہو گیا تھا‘ اور پرویز خٹک بائیکاٹ کے فیصلے پر قائم تھے۔ اگلے روز پارلیمنٹ سے خطاب کے موقع پر جنابِ خٹک کے سوا سبھی موجود تھے۔
غیر ملکی سربراہوں کے دورہ ٔ پاکستان پر لاہور میں استقبالیہ/ عشائیہ عشروں پرانی روایت ہے۔ لاہور کی اپنی ایک تاریخی حیثیت ہے۔ بھٹو صاحب نے 1974ء کی مسلم سربراہوں کی تاریخی کانفرنس بھی لاہور ہی میں منعقد کی تھی۔ تب سکیورٹی کے مسائل ایسے نہ تھے؛ چنانچہ زندہ دلانِ لاہور ایئرپورٹ سے شاہی قلعہ، بادشاہی مسجد اور شالامار باغ، جہاں جہاں بھی معزز مہمان کو جانا ہوتا، سڑکوں پر دو رویہ کھڑے ہو کر والہانہ استقبال کرتے۔ شہر میں جشن کا سماں ہوتا۔ 1998ء کے اواخر میں جدہ ہجرت سے قبل، لاہور میں ہماری آخری اخباری ڈیوٹی سعودی عرب کے شاہ عبداللہ (تب ولی عہد) کی لاہور آمد کی کوریج تھی۔ شالامار باغ میں استقبالیہ اور شاہی قلعے میں عشائیہ تھا۔ معزز مہمان جہاں جہاں سے گزرے ، بے پایاں جذبوں نے ان کا خیر مقدم کیا۔
افغانستان کے صدر سردار داؤد، جنرل ضیاالحق کے دور میں پاکستان آئے تو ان کے لئے بھی شالامار باغ میں استقبالئے کا اہتمام تھا۔ یہاں اپنے خطاب میں افغان صدر نے دونوں ملکوں کے درمیان ماضی کے اختلافات کو بہت گہرا دفن کرتے ہوئے اعلان کیا: ہم یک جان دو قالب ہیں۔ ہم نے دلوں کی ڈیورنڈ لائن گرا دی ہے۔ دِلی اور ماسکو تک دور دور خطرے کی گھنٹی بج گئی تھی۔ کابل واپسی کے چند روز بعد سردار داؤد قتل کر دیئے گئے۔ روس کی پشت پناہی سے نور محمد ترہ کئی برسرِ اقتدار آ گئے تھے۔
ایوب خان کے دور میں ملکہ انگلستان کے دورہ پاکستان پر ان کے لئے لاہور کے شالامار باغ میں استقبالیے کا اہتمام تھا۔ تب لاہور میٹروپولیٹن نہیں تھا‘ یہاں بلدیہ ہوتی تھی جس کا سربراہ چیئرمین کہلاتا۔ ان دنوں نیم خواندہ اور سادہ دل چودھری محمد حسین چیئرمین ہوتے تھے۔ ان کی نیم خواندگی کبھی کبھار بڑی دلچسپ صورتحال پیدا کر دیتی۔ استقبالیہ خطبے میں وہ ملکہ ٔ معظمہ کو مکہ معظمہ پڑھتے رہے، اور آخر میں منجانب چودھری محمد حسین، چیئرمین بلدیہ لاہور پر ہی اکتفا نہ کیا، بلکہ ”پتنگا پرنٹنگ پریس میں چھپا‘‘ بھی پڑھ گئے۔
اور یوں بھی ہوا کہ لاہور میں ایسے ہی کسی واقعے نے سیاست کا رخ ہی بدل ڈالا۔ ایک واقعہ فیلڈ مارشل ایوب خاں کے سیکرٹری اطلاعات الطاف گوہر کی زبانی: 1965ء کی جنگ کے بعد چین کے صدر لیو شاؤچی پاکستان کے دورے پر آئے۔ انہیں لاہور بھی آنا تھا۔ لوگ معاہدۂ تاشقند پر ایوب خان سے ناراض تھے؛ چنانچہ انہوں نے لاہور نہ آنے کا فیصلہ کیا۔ الطاف گوہر انہیں چینی صدر کے ہمراہ عوام کے سامنے آنے کی سیاسی افادیت پر قائل نہ کر سکے اور انہوں نے وزیرِ خارجہ بھٹو کو صدر لیو شاؤچی کے ساتھ کر دیا۔ لاہور میں چینی رہنما کا استقبال بے پناہ تھا۔ ہوائی اڈے سے گورنر ہاؤس تک ایک انچ جگہ خالی نہ تھی۔ بھٹو کا چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا اور چار سو پھیلے پُرجوش عوام ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے والہانہ جذبات کا اظہار کر رہے تھے۔ عوام نے چینی رہنما کی گاڑی کو کندھوں پر اٹھا لیا‘ جس پر بھٹو بھی سوار تھے۔ ایوب خان نے اس روز بھٹو کو اپنے ہاتھوں سے اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیا تھا۔