خبرنامہ سندھ

اسلام آباد کے ایوانوں تک محدود جمہوریت کو نہیں مانتے، مصطفیٰ کمال

کراچی:(آئی این پی) پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے ایوانوں تک محدود جمہوریت کو نہیں مانتے،ہم چاہتے ہیں کہ اگر ملک میں جمہوریت چلانی ہے تو اسے ایوانوں میں نہیں پاکستانیوں کے گھروں کی دہلیز پر ہونا چاہیئے۔مزارقائد سے متصل جناح گراؤنڈ میں پاک سرزمین پارٹی کے پہلے سیاسی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ پاک سرزمین پارٹی وطن پرست لاکھوں لوگوں کی تحریک بن چکی ہے جس نے وقت کے فرعون کے خلاف کلمہ حق بلند کیا، دنیا میں کوئی ایسی جماعت نہیں جس نے30 دن میں لاکھوں لوگ جمع کئے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی جمہوریت کو نہیں مانتے جو صرف اسلام آباد کے ایوانوں تک محدود ہو بلکہ ایسی جمہوریت چاہتے ہیں جس میں عوام کے مسائل گھر بیٹھےحل ہوں، ارکان اسمبلی اور سینیٹرز کا کام قانونی سازی کرنا ہے لیکن انہیں ترقیاتی کاموں میں لگادیا گیا اورترقیاتی فنڈز کے نام پر اربوں روپے کے فنڈز ہڑپ کیے گئے،عوام کو پینے کا صاف پانی نہ دینے والی حکومت کو جمہوری حکومت کہلانے کا کوئی حق نہیں۔مصطفیٰ کمال کا کہنا تھا کہ روزگار کے مواقع فراہم کرنا حکومت کا کام ہے لیکن اسپتالوں اور صفائی کا نظام یونین کونسلز کے حوالے ہونا چاہیئے، گلی، محلے، گاؤں، گوٹھوں میں تعلیم، صحت اور آمد و رفت کا نظام وہاں کے لوگوں کو ملنا چاہیئے، ملک میں سب جمہوریت چاہتے ہیں جس کے لئے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کئے جائیں گے تو ملک میں جمہوریت فروغ پائے گی۔رہنما پی ایس پی کا کہنا تھا کہ کراچی کبھی روشنیوں کا شہر کہلایا جاتا تھا لیکن اس شہر کے ساتھ بدنما داغ لگ گئے اور آج کراچی کے لوگوں کو ٹارگٹ کلر، بھتہ خوروں کے علاوہ “را” کے ایجنٹ سمیت کئی ناموں سے پکارا جانے لگا ہے، 50 سالوں میں کسی نے اس شہر کے مسائل کے حل کی بات نہیں کی، پاکستان کو 70 فیصد ریونیو دینے والا شہر صرف پاکستان کا ہی نہیں بلکہ وسطی ایشیا کا گیٹ وے ہے جہاں کسی نے آکر ماس ٹرانزٹ بنانے کی بات نہیں کی، پاک سرزمین پارٹی کراچی کو امن پسندوں کا شہر بنائے گی، یہ شہر دوبارہ تعلیم یافتہ، تہذیب یافتہ لوگوں کا شہرہوگا اوراب ہم گلی گلی پاکستانیوں کے پاس جائیں گے۔پی ایس پی كے رہنما مصطفی كمال سياسی حلقوں كی توقعات كے مطابق عوامی مسائل كے حل كے لئے اپنی جماعت کی پالیسی عوام کو منتقل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں کرسکے، مصطفیٰ کمال کی تقریر کا محور قومی معاملات کے بجائے بلدیاتی نظام کے گرد ہی گھومتا رہا اور وہ ایم کیو ایم کے لاپتہ اسیر متحدہ کارکنان کے لئے کوئی قانونی امداد فراہم کرنے سے متعلق پالیسی کا اعلان بھی نہیں کرسکے۔ سیاسی حلقوں كا خیال ہے کہ مصطفیٰ کمال کی تقریر سے ایسا محسوس ہوتا رہا کہ وہ شاید کسی مخصوص ٹاسک پر جلسے میں بات کرنے آئے ہیں اور ان کی تقریر کی تیاری بھی نہیں تھی جب كہ متعددمقامات پرمصطفی كمال نے وہی تمام مطالبے كئے جوايم كيوايم گزشتہ 35برس سے كرتی چلی آرہی ہے جس میں ٹاؤن اور یوسی کی سطح پر اختیارات کا نہ ملنا قابل ذکر باتیں ہیں۔سياسی حلقوں كے مطابق مصطفی كمال كا خطاب يونين كونسلز كے مسائل كی حد تک نظرآیا جب کہ پی ایس پی تاحال تنظیمی ڈھانچہ اور پارٹی پرچم بنانے سے بھی قاصر رہی ہے اس کے علاوہ پی ایس پی اپنے پہلے سیاسی جلسے میں عوام کو اپنا منشور اور تنظیمی ڈھانچہ دینے سے بھی قاصر رہی۔ عوامی حلقوں كا كہنا ہے كہ پی ایس پی کو اپنی سیاست میں قومی پرچم نہیں استعمال کرنا چاہیئے اور اسے فوری طور پر اپناجماعت کا پرچم تیار کرنا چاہیئے۔