خبرنامہ سندھ

تھرمیں غیر سرکاری تنظیمیں اور حقائق

تھر، دنیا کا تیسرا بڑا عظیم صحرا جہاں کی 90 فیصد آبادی خط غربت سے بھی نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ جب وہاں جاکر لوگوں سے ملاقات ہوئی یہ احساس شدت سے ہوا کہ انہیں زندگی کے نام پر محض گھسیٹا جا رہا ہے۔ ان کی زرد آنکھیں، الجھے بال، خوشی سے عاری سپاٹ چہرے دیکھ کر دل میں سوز و گداز پیدا ہوتا چلا جاتا ہے کہ ارباب اختیار آخر انہیں نظر انداز کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟ آزادی حاصل ہونے کے طویل عرصے بعد بھی آج تک ہم اپنی سرحدوں پر بسنے والوں کو وہ اہمیت نہیں دے پائے جس کے وہ مستحق ہیں۔ ننگر پارکر جاتے ہوئے رینجرز کی چوکی پر معلوم ہوا کہ وہاں مقامی رہائشی کے گھر سے کچھ بھارتی پکڑے گئے ہیں۔ سماجی کارکن بن کر آنے والے ان بھارتیوں کو یہاں کے سادہ لوح مقامی افراد کچھ پیسوں کی آس پر اپنے گھروں میں رہنے کو جگہ دے رکھی تھی۔ سازشی کارستانیوں کی یہ داستاں کوئی نئی نہیں بلکہ تقسیم ہند کے بعد سے ہی بھارت اس خطے کوعدم استحکام دینے کی نیت کئے بیٹھا ہے، جس پر وہ گاہے بہ گاہے اپنے لوگ سماجی کارکنوں کے بھیس میں یہاں بھیجتا رہتا ہے اور یہ نام نہاد غیر سرکاری فلاحی تنظیمیں جہاں ایک طرف وطن عزیز کی سالمیت کو نقصان پہنچانے میں ملوث ہیں تو دوسری طرف ان کی اس حالات زار کو مقامی ایجنٹوں کے ذریعے کیش بھی کرا رہی ہیں۔ ایسے ہی ایک نام نہاد مقامی سماجی کارکن سے جو ان فلاحی تنظیموں کے ساتھ منسلک ہے۔ ہم نے مٹھی کے بازار میں ایک دوکاندار کے توسط سے ملاقات کی مگر مزید معلومات کے لئے جب ہم نے اس شخص کو دوبارہ زحمت دی تو موصوف نے بہانہ بنا کر ملنے سے معذرت کرلی، جس سے ہمیں بخوبی اندازہ ہوگیا کہ انسانیت کہ یہ سوداگر سادہ لوح تھریوں کو کس طرح بے وقوف بنا رہے ہیں۔ تھری عوام کی تصاویری شکل میں حالت زار دکھا کر دوسرے ممالک سے کروڑوں روپے بٹور رہے ہیں۔ یہ حضرات علاقے کی بہبود کے نام پر ملنے والی رقم سے عیاشی کرتے ہیں، جبکہ تھر باسی وہی سخت اور دشوار زندگی گزار رہے ہیں۔ صحرائے تھر میں مختلف این جی اوز کے نام کے بورڈز جگہ جگہ لگے نظر آتے ہیں، جن پر ان این جی اوز کی جانب سے تعمیر کئے گئے اسکول، ہنر مندی کے مراکز اور ڈسپینسریوں پر مشتمل مختلف قسم کے پروجیکٹس کے نام درج ہیں، مگر تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ تمام پروجیکٹس اب بند پڑے ہیں۔ اس سلسلے میں مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں سب برائے نام چلتا ہے، ان سے وابستہ افراد سال میں ایک دو بار یہاں آتے ہیں رجسٹر میں لوگوں کے ناموں کا اندراج کرتے ہیں اور پھر ایک لمبےعرصے کیلئےغائب ہوجاتے ہیں۔