خبرنامہ سندھ

دہشت کی علامت خطرناک مجرم غفار ذکری مارا گیا، بچے کی ہلاکت پر دکھ ہے، پولیس چیف

کراچی: پولیس اورخفیہ اداروں کے آپریشن کے نتیجے میں بدنام زمانہ لیاری گینگسٹرغفارذکری کی ساتھی سمیت ہلاکت پر ردعمل دیتے ہوئے کراچی پولیس چیف امیر شیخ کا کہنا ہے کہ دہشت کی علامت ایک خطرناک مجرم مارا گیا، تاہم انہوں نے کارروائی کے دوران ایک بچے کی ہلاکت پر دکھ کا اظہار بھی کیا۔

واضح رہے کہ رات گئے کراچی کےعلاقے لیاری میں پولیس مقابلے کے دوران گینگ وار کا مطلوب ترین ملزم غفار ذکری، اپنے 3 سالہ بیٹے اور ساتھی چھوٹا زاہد سمیت مارا گیا تھا جبکہ فائرنگ کے تبادلے میں ایک سب انسپیکٹر اور 2 اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

ہلاک ملزم غفار ذکری نے اپنے بیٹے کو ڈھال بنا رکھا تھا، جو مقابلے کے دوران فائرنگ کی زد میں آیا۔

میڈیا سے گفتگو میں غفار ذکری کے خلاف کیے گئے پولیس آپریشن کی تفصیلات بتاتے ہوئے پولیس چیف امیر شیخ کا کہنا تھا کہ کافی دنوں سے ریکی چل رہی تھی، پولیس نے غفار ذکری سے متعلق معلومات جمع کیں اور انتہائی بہادری سے کامیاب آپریشن کیا۔

انہوں نے بتایا کہ پولیس اور رینجرز کے جوان اپنی جان خطرے میں ڈال کر کام کرتے ہیں، ہمارے اہلکاروں کو بھی گولی لگی ہے، جن کی قربانیوں کو دیکھنا چاہیے۔

کراچی پولیس چیف کا کہنا تھا کہ ہلاک ملزم غفار ذکری کے سر کی قیمت 25 لاکھ روپے مقرر تھی۔

ساتھ ہی انہوں نے اعلان کیا کہ کارروائی میں حصہ لینے والے سب انسپکٹر محمد علی اور ان کی ٹیم کو وہ اپنی طرف سے پانچ لاکھ روپے انعام دے رہے ہیں جبکہ وہ آئی جی کو بھی پولیس ٹیم کے لیے 10 لاکھ روپے انعام کی سفارش کریں گے۔

امیر شیخ کا کہنا تھا کہ لیاری میں پولیس اہلکاروں کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا، لیاری سے فون کالز اور بھتے کی پرچی جاتی تھی، لیکن اب ایسی صورت حال نہیں۔

پولیس چیف کے مطابق کراچی آپریشن میں تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بہتر کردار ادا کیا اور جرائم پیشہ عناصر سے ہماری جنگ جاری ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ گینگ وار کے سرغنہ ضرور ختم ہوگئے، لیکن ان کے کارندوں سے ہماری جنگ جاری ہے۔

پولیس چیف نے بتایا کہ کچھ عناصر شہر میں یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ حالات بہت خراب ہیں۔

اس حوالے سے حالیہ واقعات کی مثالیں دیتے ہوئے امیر شیخ نے بتایا کہ بلال ٹاؤن میں ایک بچہ اغوا ہوتا ہے اور چار گھنٹے میں جلاؤ گھیراؤ کا ڈرامہ اسٹیج ہوتا ہے، تاہم جب بچہ واپس ملتا ہے تو کہتا ہے کہ اسے اس کے والد کے دوست اپنے ساتھ لے گئے تھے۔

امیر شیخ کے مطابق رات بھی 14 سال کی بچی کے اغوا کی بات مشہور ہوئی اور پھر دھرنا اور جلاؤ گھیراؤ شروع ہوگیا، 3 گھنٹے جب پولیس کی کوششوں سے بچی ملی تو پتہ چلا کہ وہ اپنی مرضی سے گئی تھی۔

پولیس چیف کا کہنا تھا کہ یہ سب کام کسی کی ترغیب پر ہو رہا ہے اور ایسے عناصر کے خلاف بھی معلومات جمع کی جارہی ہے۔