خبرنامہ سندھ

راؤ انوار پر خود کش حملہ، ذمے داری طالبان نے قبول کر لی

راؤ انوار پر خود کش حملہ، ذمے داری طالبان نے قبول کر لی

کراچی: (ملت آن لائن) ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر خود کش حملے کی ذمے داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی۔ ادھر حملے کا مقدمہ درج کرلیا گیا۔ سی ٹی ڈی پولیس کے مطابق مبینہ خودکش حملہ آور کے جسم سے کوئی بارود یا لوہے کی چیز نہیں ملی، اس کے اعضاء بھی نہیں بکھرے۔ تحریک طالبان پاکستان ٹی ایس گروپ نے حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ اس حوالے سے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر جاری بیان میں تحریک طالبان کا کہنا ہے کہ ٹی ٹی پی کے ٹی ایس گروپ کے فدائی اسماعیل آفریدی نے ایس ایس پی پر حملہ کیا، ہم رکاوٹ کو ہٹانے کا تہیہ کر چکے ہیں، جعلی مقابلوں کا ماسٹر مائنڈ ایس ایس پی چوہدری اسلم بھی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔
ادھر سی ٹی ڈی افسران کا کہنا ہے کہ پہلی دفعہ ایسا ہوا کہ حملہ آور کے جسم کے اعضاء نہیں بکھرے، بلکہ وہ جل کر ہلاک ہوا، اس کے جسم اور جائے وقوعہ سے بارود کے نشانات نہیں ملے، نہ ہی جائے وقوعہ سے بارود کی بو آ رہی تھی کہ جس سے حملہ آور کے پاس بارود موجود ہونے کا تعین ہوسکے۔ ایس ایس پی ملیر راؤ انوار پر ملیر ہالٹ سے سپر ہائی وے جانے والی سڑک پر اس سے قبل بھی دو حملے ہوچکے ہیں۔ راؤ انوار پر 2009ء میں پہلا حملہ اُس وقت ہوا جب وہ اپنی رہائش گاہ ملیر کینٹ سے اپنے دفتر قائد آباد جا رہے تھے، خودکش بمبار نے موٹر سائیکل بکتر بند سے ٹکرا دی، جس میں ایس ایس پی ملیر محفوظ رہے اوردو اہلکار زخمی ہوئے تھے ، دوسرا حملہ راؤ انوار پر 30 اپریل 2015ء کو اُس وقت ہوا جب وہ اہم شخصیات سے ملنے جا رہے تھے، جیسے ہی وہ ملیر کینٹ سے باہر نکلے تو دہشت گردوں نے حملہ کر دیا، پولیس مقابلے میں تین ملزمان مارے گئے۔
دریں اثناء راؤانوار پر مبینہ خودکش حملے کا مقدمہ درج کر لیا گیا، مقدمہ نمبر 8/18 اے ایس آئی رفیق کی مدعیت میں ملیر کینٹ تھانے میں زیر دفعہ 353.324.7ATA.3/4 کے تحت نا معلوم دہشت گردوں کے خلاف درج کیا گیا۔ دوسری جانب ایس ایس پی ملیر پر منگل کو ہونے والے خود کش حملے کے حوالے سے ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے کے بعد ابھی تک یہ تعین نہیں ہوسکا ہے کہ مبینہ خود کش بمبار کے ساتھ بارودی مواد تھا بھی یا نہیں۔ اس سلسلے میں بم ڈسپوزل اسکواڈ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ہمیں آفیشلی کسی نے جائے وقوع پر طلب ہی نہیں کیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی رپورٹ مرتب ہوئی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ واقعے کا مقدمہ سی ٹی ڈی میں درج ہونے کے بجائے ملیر کینٹ تھانے میں درج کیا گیا اور جائے وقوع کا کسی اعلیٰ افسر نے دورہ بھی نہیں کیا تھا۔