خبرنامہ سندھ

’مادر پاکستان:بلقیس ایدھی کی خدمات

کراچی:(اے پی پی)بلقیس ایدھی کی سماجی خدمات کے اعتراف کے طور پرانہیں بعض لوگ’ مادر پاکستان‘ کا لقب بھی دیتے ہیں۔ ایک چھوٹی سی ڈسپنسری سے شروع ہونے والے ایدھی ٹرسٹ کو ملک کے سب سے بڑے اور فعال ترین ادارے ایدھی فاؤنڈیشن میں بدلنے میں عبدالستار ایدھی کے ساتھ ان کی زوجہ بلقیس ایدھی بھی ان کے شانہ بشانہ رہیں۔بلقیس ایدھی کی ان ہی خدمات کا اعتراف اب بھارت میں کیا گیا ہے۔بلقیس ایدھی نے بھارت سے تعلق رکھنے والی ،سننے اور بولنے کی صلاحیت سے محروم لڑکی ،گیتا کی 15 برس تک دیکھ بھال کی جو 10برس کی عمر میں غلطی سے پاکستان پہنچ گئی تھی۔اس کو ایدھی سینٹر کے حوالے کر دیا گیاوہاںبلقیس ایدھی نےاس کی دیکھ بھال کی ،اس کا مذہبی تشخص برقرار رکھا اور اسے اُس کے ملک واپس بھیجنے کے لیے انتھک کوششیں کیں ۔ اسی اعتراف کے طور پر بھارت نے بلقیس ایدھی کو مدر ٹریسا ایوارڈ 2015ء سے نوازا ہے۔جرمن نشریاتی ادارے ’ڈوئچے ویلے‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، انہوں نے محض 16 سال کی عمر میں ایدھی صاحب کے قائم کردہ نرسنگ ٹریننگ اسکول میں داخلہ لیا اور نرسنگ کی باقاعدہ پیشہ ورانہ تربیت حاصل کی۔ ان کی محنت، لگن اور جوش وجذبے کو دیکھتے ہوئے ایدھی صاحب نے نرسنگ کے اس ادارے کی ذمہ داریاں انہیں سونپ دیں۔ اس دور میں نرسنگ کے شعبے کی طرف خواتین کا رجحان بہت کم تھا۔انہوں نے اس ادارے میں دو برس تک جانفشانی اور انتہائی لگن کے ساتھ کام کیا اور یہی محنت اور جذبہ ہی عبدالستار ایدھی کے دل میں بھی گھر کر گیا۔ یوں 1966ء میں بلقیس بانو، عبدالستار ایدھی کی رفیق حیات بن گئیں۔شادی کے بعد ان دونوں سماجی شخصیات نے بہت سے نئے فلاحی کاموں کا آغاز کیا۔ بے گھر ہونے والی خواتین کو ادارے میں جگہ دینا ہو یا ایدھی میٹرنٹی ہوم میں زچہ وبچہ کی دیکھ بھال کرنا ہو، اس طرح کے خواتین سے متعلق تمام فلاحی کاموں کی نگرانی بلقیس ایدھی کرنے لگیں۔ایدھی فاؤنڈیشن کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچوں سے متعلق فلاحی کاموں کے لیے بلقیس ایدھی نے بلقیس ایدھی فاؤنڈیشن کی بھی بنیاد رکھی۔ یہ فاؤنڈیشن لاوارث بچوں کی دیکھ بھال سے لے کر لاوارث اور بے گھر لڑکیوں کی شادیاں کروانے کی ذمہ داری انجام دیتی ہے۔ اس فاؤنڈیشن کا کام بلقیس ایدھی اپنی دو بیٹیوں اور الگ عملے کے ساتھ دیکھتی ہیں۔