خبرنامہ سندھ

ملیرمیں کون ہارا؟…الیاس شاکر

کراچی کے علاقے ملیر کے حلقے پی ایس 127میں ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے درمیان ہونے والا کانٹے کا مقابلہ ایم کیو ایم کو کانٹا چبھاکراپنے اختتام کو پہنچا۔ایم کیو ایم کے حامیوں کو سمجھ نہیں آ رہا کہ ہمارے ساتھ کیا کام ہوگیا؟کس نے کیا کردیا؟دھاندلی کا الزام اس ناکامی کا داغ نہیں دھوسکتا۔ مہاجر اتحاد تحریک کے سربراہ ڈاکٹر سلیم حیدر کا کہنا ہے کہ اردو بولنے والوں کی اتنی بڑی تاریخی شکست کی ایک ہی وجہ ہے کہ مہاجر متحد نہیں تھے اور مہاجر ووٹر مہاجر لیڈرشپ پر 100فیصد بھروسہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس وقت مہاجرجماعتیں چارحصوںمیں بٹی ہوئی ہیں۔کچھ چھوٹی ہیں اور کچھ بڑی ہیں، لیکن جب کوئی کانچ کا برتن ٹوٹتا ہے تو ماں بچے کو تھپڑ مار کرکہتی ہے: ” تم نے برتن توڑدیا‘‘۔ بچے جواب میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ دوٹکڑے بڑے ہیں اور دو ٹکڑے چھوٹے ہیں۔
ڈاکٹرفاروق ستار کا یہ بیان بہر حال غور طلب ہے کہ پیپلز پارٹی کے غنڈوں نے کارکنان پر تشدد کرایا جس کا نتیجہ تقریباً ساڑھے پانچ ہزار ووٹوں سے ناکامی کی صورت میں نکلا۔ فاروق ستار نے یہ بھی تسلیم کیا کہ کسی انتخاب میں حصہ لینے کی تیاری بہت ضروری ہوتی ہے۔ سابقہ ”کنٹرولڈ صحافت‘‘کی عادت کی وجہ سے ہم یہ بھی نہیں پوچھ سکتے کہ آپ نے تیاری کیوں نہیں کی تھی ؟ کسی نے روکا تھا یا آپ کے تجربہ کار کارکن بکھر گئے تھے؟ پیپلز پارٹی کے ایک پرانے جیالے نے کہا کہ ”حالیہ چند ہفتوں میں ایم کیو ایم کا کچھ رعب بھی کم ہوا ہے جس کے اثرات انتخابات پر بھی پڑے ہیں۔ یہ ہے تو ایک تلخ جواز ہے لیکن مخلوق ِ خدا کی جانب سے آنے والے ہر الزام اور وضاحت پر سوچنا سمجھنا چاہیے۔
بہر حال یہ بات بھی بڑی غور طلب ہے کہ ایم کیو ایم نے الیکشن ہارا ہے یا اسے ہروایا گیا ہے۔ ایم کیو ایم مخالف اخبارات نے لکھا ہے کہ ”ایم کیو ایم اپنی تنظیمی طاقت ٹوٹنے کی وجہ سے کمزور ہو رہی ہے، اس کے اثرات بھی ملیر کی شکست میں نظر آئے اور اگلے مراحل میں بھی دیکھے جاسکیں گے‘‘۔ ایم کیو ایم نے یہ تو عقلمندی کی کہ کھالیں جمع کرنے کے بارے میں فاروق ستار نے صاف صاف کہہ دیا کہ ”ہم تو اپنی کھال بچاتے پھر رہے ہیں، کھالیں جمع کرنے کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں‘‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایم کیو ایم اس مسئلے پر تھوڑا کھل کر بات کرے ۔ عام مبصرین کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم الیکشن ہاری نہیں ہے بلکہ وہ مس مینجمنٹ (افراتفری )کا شکار ہوئی ہے۔ ایم کیو ایم نے بالکل اسی طرح بے دلی سے الیکشن لڑا جس طرح جماعت اسلامی نے این اے 245 پر کنور نوید جمیل کے مقابلے میں لڑا تھا اور اپنی ضمانت ضبط کروا بیٹھی تھی۔ الیکشن ایک سنجیدہ کھیل ہے، اگر بازو میں طاقت اورجسم میں
ہمت نہ ہو تو اس وادی کارزار میں نہ اترا جائے۔ ملیر کا الیکشن ایم کیو ایم کیلئے ایک سبق بھی ہے اور ایک چوٹ بھی ہے۔ سبق پڑھنا پڑتا ہے اورچوٹ سہنی پڑتی ہے، پھر جاکر کوئی نتیجہ نکلتا ہے۔ ایم کیو ایم کو سوچنا چاہیے کہ پولنگ کے ابتدائی گھنٹوں میں جن نوجوانوں نے ان پر حملہ کیا وہ ان کے سابقہ دوست تھے ۔کبھی اُن کی پارٹی کا حصہ تھے، پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ الگ ہوگئے اور اختلافِ رائے اختلافِ جان تک پہنچ گیاتھا۔ دنیا میں کوئی ایسا درخت نہیں کہ آپ دشمنی بوئیں اوردوستی کا پھل کاٹیں۔ یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں اور خاص طور پر اُس وقت جب آپ طاقتور ہوں اورسامنے والا حریف کمزور۔ یا پھر سندھ کے جاگیرداروں کی طرح جینا سیکھو۔ سندھ اسمبلی کے موجودہ اسپیکر آغا سراج درانی کے والد
محترم بھی سندھ اسمبلی کے اسپیکر تھے۔ یہ بھٹو دور کی بات ہے جب پیپلز پارٹی ایف ایس ایف کے ٹرک پر سوار ہو کر عوام کو جمہوریت سکھا رہی تھی۔ ان ایام میں سندھ اسمبلی نے ایک کمیٹی بنائی جس میں یہ طے ہونا تھا کہ سرکاری ارکان اسمبلی کو کیا سہولتیں اورمراعات دی جائیں اور اپوزیشن ارکان کو کیا سہولیات ملنی چاہئیں۔ ایک مرحلے پر اس کمیٹی کے رکن نواب مظفر حسین مرحوم نے کہا ”آغاصاحب! ایسے قوانین نہ بنائیں کہ کل کلاں جب آپ اپویشن میں بیٹھیں تو آپ کو تکلیف ہو‘‘۔ آغاصدر الدین نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ”نواب صاحب ہم کوئی ایسی حرکت ہی نہیں کرتے کہ ہمیں اپوزیشن میں بیٹھنا پڑے‘‘۔ تاریخ کے ایسے اسباق ہمیں بھی دعوتِ فکر دیتے ہیں۔
ملیر کے ضمنی الیکشن میں ایم کیو ایم کے ساتھ جو ہوا اس پرلندن سے ندیم نصرت بھی بولے۔ انہوں نے زرداری سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ ”پیپلزپارٹی نے ایک بار پھرایم کیو ایم کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے۔ زراداری نے اس حلقے میں امیدوار کھڑا نہ کرنے کا وعدہ کیا تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا‘‘۔ یہ بیان پڑھ کر دوسوال ذہن میں آتے ہیں۔ اول یہ کہ جب کراچی میں 22 اگست کا واقعہ ہوا تو ندیم نصرت نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن جب بات مینڈیٹ پر آئی تو ایم کیو ایم کے کنوینر ندیم نصرت کا بیان فوراً آگیا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب پیپلزپارٹی نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے تھے تو ایم کیو ایم کہاں تھی؟ اس وقت کیوں اعتراض نہیں کیاگیا؟ اس وقت کیوں خاموشی تھی؟ لڑائی کے بعد یاد آنے والے مُکے کی کوئی حیثیت نہیںہوتی ۔ ملیر کے ضمنی الیکشن کے بارے میں بہت سے تجزیے سامنے آئیں گے۔ بہت سے لوگ بہت کچھ کہیں گے۔ بات کریں گے، تنقید کریں گے، بحث ہوگی لیکن سیاست میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں۔ ایم کیو ایم کواب بھی سوچنا چاہیئے کہ انہیں کہاں کہاں سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ ایم کیو ایم کو اس بات کی داد ضرور ملنی چاہیے کہ اتنے سخت حالات میں وہ جس طرح مقابلہ کر رہی ہے کسی اور پارٹی کی ایسی مثال ماضی قریب میں نہیں ملتی۔
ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ فاروق ستار نے” ملیرکے دنگل‘‘ سے قبل انتخابی ریلی سے خطاب میں ضمنی الیکشن کو ریفرنڈم قرار دے دیا تھا۔انہوں نے اُس وقت شاید جلد بازی کی اور یہ اندازہ بھی نہیں لگایا کہ حلقہ پی ایس 127کا 40 فیصد علاقہ دیہی آبادی پر مشتمل ہے تو یہاں ریفرنڈم کیسے ہوسکتا ہے؟ ان کا یہ بیان پوری ایم کیو ایم کو ”بیک فُٹ‘‘ پر لے آیا ہے۔ رات 8 سے 12کے ٹی وی ٹاک شوز میں اینکرز کے سوالات میں بھی تیزی آگئی ۔ حقیقت یہ ہے کہ ابھی ایم کیو ایم کے مینڈیٹ کے بارے میں کوئی دعویٰ کرنا قبل ازوقت ہوگا۔کراچی میں صوبائی اسمبلی کی تین درجن اور قومی اسمبلی کی ڈیرھ درجن نشستوں پر بھی ریفرنڈم ہوگا یا پھر ایم کیو ایم کا ”مینڈیٹ ‘‘ سب کچھ بھول کر پھر واپس آجائے گا؟ اور کون سی پارٹی کس پوزیشن پر کھڑی ہوگی اس کا نتیجہ دیکھنے کے لئے ڈیڑھ سال انتظار کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے۔