خبرنامہ سندھ

کراچی: اغوا برائے تاوان میں 47پولیس افسران کے ملوث ہونے کا انکشاف

کراچی(آئی این پی)سپریم کورٹ نے اغوابرائےتاوان کی وارداتوں میں 47پولیس افسران کے ملوث ہونے کے انکشاف کے بعد برہمی کا اظہار کرتے ہوئے آئی جی سندھ کو کارروائی کا حکم دے دیا۔ ادھر سندھ رینجرز نے اپنے تھانے بنانے، خود ایف آئی آر درج کرنے،تفتیش اور چالان جمع کرانے کا اختیار مانگ لیا۔کیس کی سماعت آج دوبارہ ہوگی۔کراچی امن و امان عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران رینجرز نے پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی،جس کے مطابق آپریشن کے دوران رینجرز نے 6ہزار ملزمان کو گرفتار کیا،مگر ناقص پولیس تفتیش کے باعث ایک سال کے دوران 11سو ملزمان چھوٹ گئے،سانحہ صفورہ کا اہم ملزم واقعےسے پہلےبھی گرفتارہوا جو 2011 ءمیں پولیس کی ناقص تفتیش کے باعث رہا ہو گیا تھا۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے حکومت سندھ رینجرزکو تھانے قائم کرنے، ایف آئی آر درج کرنے، تفتیش اورچالان جمع کرانے کا اختیار دے۔رینجرز کو انسداد دہشت گردی کے اختیارات سالانہ بنیاد پردیے جائیںجو حکومت سندھ 3 یا 4 ماہ کے لیے دیتی ہے، پولیس کو غیرسیاسی کیا جائے، پولیس میں صاف اورشفاف بھرتیاں کی جائیں۔ جسٹس شیخ عظمت سعید نے ریمارکس میں کہا کہ رینجرز کی رپورٹ آئی جی سندھ اور چیف سیکریٹری کے خلاف چارج شیٹ ہے۔چیف جسٹس سپریم کورٹ نے چیف سیکریٹری سے کہا کہ ایسا منظر پیش نہ کیا جائے جس سے یوں لگے کہ دو ریاستی ادارے ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ کیس کی سماعت کے دوران آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے اپنے محکمے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ پولیس نے بہت کام کیا ہے، یہ دعویٰ انہیں بھاری پڑ گیا۔ جسٹس صاحبان نے آئی جی سندھ کو ایس ایس پی عمران فاروقی کی رپورٹ دکھاتے ہوئے دریافت کیا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس میں 47 افسران،شارٹ ٹرم کڈنیپنگ میں ملوث بتائے گئے ہیں؟ استفسار پر آئی جی سندھ نے لاعلمی کا اظہار کیا تو جسٹس امیر ہانی مسلم بولے کہ اگراتنا بھی نہیں معلوم تو آپ کو وردی میں رہنے کا بھی حق نہیں، آپ جس امن کی بات کررہے ہیں وہ رینجرز کی وجہ سے ہوا۔ جسٹس امیر ہانی مسلم نے کہاکہ ایسے بھی واقعات ہیں کہ ایڈیشنل آئی جی کے کہنے پر مغوی کو رہا کیا گیا اور تاوان کی رقم واپس دلائی گئی۔ عدالت نے حکم دیا کہ شارٹ ٹرم کڈ نیپنگ میں ملوث پولیس افسران کے خلاف صرف انکوائری نہیں مقدمہ درج کیا جائے۔ عدالت نے پراسیکیوٹر جنرل سندھ کو بھی حکم دیا کہ بتایا جائے کہ کتنے مقدمات اے کلاس ہوئے کتنے سی کلاس اور کتنے مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع کرائے گئے۔