خبرنامہ

آئن اسٹائن کا نظریہ اضافیت کیا ہے اور اس کی تصدیق کیسے ہوئی؟

آئن اسٹائن کی کشش ثقل سے متعلق قانون کی تصدیق کے لییے سائنسدان ایک عرصے سے ایک نیچرل لیبارٹری (قدرتی تجربہ گاہ) کی تلاش میں تھے، 2011 میں گرین بینک ٹیلی اسکوپ کے ذریعے نیشنل سائنس فاؤنڈیشن سے منسلک چند سائنسدانوں نے 3 ستاروں مشتمل ایک سسٹم دریافت کیا جسےایس آر 503371715 کا نام دیا گیا، یہ ستاروں کا سسٹم زمین سے 4 ہزار 200 نوری سالوں کے فاصلے پر وا قع ہے اور ان 3 ستاروں میں سے ایک نیوٹران اسٹار ہے۔

نیوٹران ستارے بے انتہا ٹھوس فلکیاتی اجسام کے ہوتے ہیں جن کی کشش ثقل اور کثافت کافی زیادہ لیکن رداس اور سائز کم ہوتا ہے اور یہ زیادہ تر نیوٹرانوں پر مشتمل ہوتے ہیں، اس نیوٹران ستارے کے مدار کا دورانیہ ایک اعشاریہ چھ دن ہے، اس کے ساتھ 2 وائٹ ڈوارف ستاروں کی جوڑی تھی، یہ ایسے ستارے ہیں جو ہمارے سورج کی طرح اندرونی طور پر بہت متحرک ہوتے ہیں اور نیوکلیائی انشقاق ( فژن ری ایکشن ) کے ذریعے ان میں ہائیڈروجن ایٹم آپس میں مدغم ہوکر ہیلیم کا بڑا ایٹم بناتے رہتے ہیں، ان وائٹ ڈوارف ستاروں میں سے ایک کا گردشی دورانیہ 327 دن ہے۔

نیچر سائنس جنرل میں شائع ہونے والے مقالے کے مصنفین کے مطابق 3 ستاروں کا یہ نظام کچھ اس قسم کا تھا کہ یہ ہمیں آئن اسٹائن کے کشش ثقل سے متعلق قانون کو پرکھنے کے لیے ایک قدرتی لیبارٹری محسوس ہوا، کیوں کہ اس جیسا کوئی اور سسٹم اب تک ماہرین فلکیات کی نظر میں نہیں آ سکا۔

سائنسدان اس سسٹم کا کئی سالوں تک مشاہدہ کرتے رہے جس سے معلوم ہوا کہ نیوٹران ستارہ دراصل ‘پلسار’ تھا، جن کی کشش ثقل بہت زیادہ ہوتی ہے اور ان سے مسلسل ریڈیائی موجیں /لہریں خارج ہوتی رہتی ہیں۔

یہ ستارے کچھ اس طرح سے گردش میں رہتے ہیں کہ ان کی گردش کا دورانیہ نوٹ کرتے ہوئے زمین پر موجود انتہائی حساس ایٹمی گھڑیاں بھی غلط ثابت ہوجاتی ہیں۔

اس نیوٹران ستارے سے آنے والے ریڈیائی پلسز یا سنگل کو انتہائی حساس گرین بینک دور بین نے ڈیٹیکٹ کیا تھا، ماہرین کے مطابق اس ستارے سے ایک سیکنڈ میں 366 بار سگنل کا اخراج ہو رہا تھا اور انہوں نے کئی برس تک اس کے ایک ایک سگنل کو چیک کیا۔

حاصل ہونے والے اعداد و شمار اس قدر جامع تھے کہ ماہرین اس نیوٹران ستارے کے بارے میں بلکل درست بتا سکتے تھے کہ اس وقت وہ کس مقام پر ہوگا اور آئندہ کب، کس مقام کی طرف رخ کرے گا، اس کا واضح مطلب یہ تھا کہ نیوٹران ستارے اور اس کے ہمسایہ ڈوارف ستاروں کو اگر پرکھا جائے تو غلطی کے امکانات بہت کم تھے۔

ماہرین کا خیال تھا کہ چوں کہ نیوٹران ستارے اور اس کے ساتھ اندرونی وائٹ ڈوارف ستارے کے ماسز میں بہت زیادہ فرق تھا اور اندرونی ڈوارف کی گریوی ٹیشنل انرجی کم تھی اس لیے ان دونوں کو باہر کی جانب والے ( بیرونی ) ڈوارف ستارے کی جانب جھکنا چاہیے لیکن ان کے جھکاؤ کی حالت ایک جیسی نہیں ہونی چاہیے تھی اور دونوں کے ماس میں فرق کے باعث ان کے گردشی اثر میں واضح فرق ہونا چاہیے تھا کیوں کہ آئن اسٹائن کے کشش ثقل سے متعلق اصول کے متبادل قوانین بھی یہی پیش گوئی کرتے ہیں، مگر سالہا سال تک ان تینوں ستاروں کا مکمل جائزہ لینے کے باوجود سائنسدانوں کو ان کے جھکاؤ اور گردشی اثر میں کوئی واضح فرق محسوس نہیں ہوا، جو آئن اسٹائن کے بنیادی نظریۂ اضافیت کی خلاء میں بڑے اسکیل پر براہ راست تصدیق تھی کہ تمام اجسام چاہے وہ جسامت میں کتنے ہی بڑے اور بھاری ہوں اور زمین کی کشش ثقل کی مناسبت سے کتنے ہی زیادہ طاقتور ثقلی میدان میں گھرے ہوئے ہوں،ان کے آزادانہ گرنے کا تناسب ایک ہی ہوتا ہے۔

اگر کسی بہت ہی زیادہ کشش ثقل والے ماحول میں اجسام کے گرنے کے جھکاؤ میں کوئی فرق نوٹ بھی کیا جائے تو وہ ایک ملین کا محض ایک تہائی حصہ ہوگا۔

اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ کشش ثقل سے متعلق آئن اسٹائن کا ‘اسٹرانگ ایکیو ویلنس ‘ یا اجسام کے گردشی اثر میں یکسانیت والا اصول فلکیاتی اجسام کے لیے بھی درست ہے، یہ اس امر کی جانب ایک اشارہ بھی ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے کائنات کی مزید سرحدوں کو پار کر کے سائنسدانوں کو نہ صرف آئن اسٹائن کے دیگر قوانین بلکہ فزکس کے اور بہت سے قوانین کو بڑے پیمانے پر پرکھنے کے لیے مزید قدرتی تجربہ گاہ مل سکتی ہیں۔