خبرنامہ

لندن کی بسیں اب ڈیزل کے بجائے کافی سے چلیں گی

لندن کی بسیں اب ڈیزل کے بجائے کافی سے چلیں گی
لندن:(ملت آن لائن) برطانیہ میں ایک کمپنی نے استعمال شدہ کافی سے ایندھن تیار کرنے کا حیرت انگیز اور کامیاب تجربہ کیا ہے جس کے بعد لندن کی بسیں ڈیزل کے بجائے اس ایندھن سے چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ دنیا کی معروف پٹرولیم مصنوعات کمپنی شیل اور آرجنٹ انرجی نے بایو بین کے اشتراک سے بچی ہوئی کافی سے ایک ایندھن تیار کیا ہے جسے ’’بی 20 بایو فیول‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور اب لندن کی بسیں اب اس فیول سے چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس پائلٹ پروجیکٹ کے تحت بسوں کےلیے ابتدائی طور پر 6 ہزار لیٹر کی مقدار میں یہ ایندھن تیار کیا گیا ہے جو لندن میں چلنے والی ایک بس کےلیے ایک سال کی مدت تک کافی رہے گا۔
بایو بین کمپنی کے بانی آرتھر کے نے سی این این کو بتایا کہ یہ ایک بہترین مثال ہے۔ جب ہم ری سائیکلڈ (بازیافت شدہ) اشیا سے ایندھن بنانے پر توجہ دے سکتے ہیں تو یہ کام بھی کیا جاسکتا ہے۔ استعمال شدہ خشک کافی سے ’’کافی تیل‘‘ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ ریستوران، کیفے، دفاتر اور فیکٹریوں میں بچی ہوئی کافی کا پھوک جمع کرنے کا کام شروع کرکے اسے ری سائیکل کیا جاسکتا ہے جسے دوسرے ایندھن کے امتزاج سے ’’بی 20 بایو فیول‘‘ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے جبکہ یہ ایندھن ڈیزل بسوں میں بغیر کسی قباحت کے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ہ ایندھن بنانے والی کمپنی کا کہنا ہے کہ استعمال شدہ کافی میں اچھی خاصی کیلوریز ہوتی ہیں اور یہ ایک بہترین مرکب ہے جسے ذخیرہ کرکے بہ آسانی معیاری ایندھن میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
کمپنی کے مطابق برطانیہ میں صرف استعمال شدہ کافی کی شکل میں سالانہ 5 لاکھ ٹن کچرا (فضلہ) ہوتا ہے جسے کچرے کی لینڈ فل سائٹس میں پھینک دیا جاتا ہے جہاں یہ ماحول کو گرمانے والی گرین ہاؤس گیسوں میں اضافے کا سبب بھی بنتا ہے۔ اس پروجیکٹ میں بہت وسعت ہے جس کا دائرہ نہ صرف امریکا بلکہ ہر اُس ملک تک پھیلایا جاسکتا ہے جہاں کافی کی بڑی مقدار استعمال کی جاتی ہو۔ اس ضمن میں امریکا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ کافی پی جاتی ہے اور ایک اندازے کے مطابق وہاں یومیہ 40 کروڑ کپ کافی پی جاتی ہے۔
واضح رہے کہ عموماً ہمارے خطے میں جو کافی پی جاتی ہے وہ ’’انسٹنٹ کافی‘‘ ہے جو پانی میں حل ہوجاتی ہے۔ تاہم مغربی ممالک میں پی جانے والی کافی ایشیائی خطے میں استعمال شدہ چائے کی پتی کی طرح ہے جو بڑی مقدار میں گھروں، ریسٹورنٹ اور ہوٹلوں سے کچرا دانوں میں پھینکی جاتی ہے۔