خبرنامہ

مادّےکی پراسرارحالتوں کی وضاحت پر3 امریکی سائنسدانوں کےلئےطبیعیات کا نوبل انعام

اسٹاک ہوم:(ملت+اے پی پی) رائل سویڈش اکیڈمی آف سائنسز نے اس سال کا نوبل انعام برائے طبیعیات (فزکس) تین امریکی سائنسدانوں میں تقسیم کیا ہے جنہوں نے مادّے کی ساخت اور حالتوں میں تبدیلی سے متعلق غیرمعمولی نظری دریافتیں کیں جن کی بدولت مادّے کی اچھوتی اور منفرد اقسام شناخت کرنے میں بہت مدد ملی۔ نوبل انعام کا نصف حصہ یونیورسٹی آف واشنگٹن، سیاٹل کے ڈیوڈ جے تھولیس جبکہ باقی نصف حصہ پرنسٹن یونیورسٹی، نیوجرسی کے ایف ڈنکن ایم ہیلڈین اور براؤن یونیورسٹی، پراویڈنس کے جے مائیکل کوسٹرلٹز کو دیا گیا ہے۔ تینوں سائنسدان برطانوی نژاد امریکی شہری ہیں۔ اس سال ہر نوبل انعام کی رقم 930000 (نو لاکھ تیس ہزار) امریکی ڈالر کے مساوی ہے۔ اس سال طبیعیات (فزکس) کا نوبل انعام حاصل کرنے والے سائنسدانوں نے مادّے سے متعلق ان پراسرار مظاہر کی ریاضیاتی وضاحت فراہم کی جو اس سے پہلے نہیں کی جاسکی تھی؛ جبکہ یہ کامیابیاں انہوں نے ریاضی کی ایک پیچیدہ اور جدید شاخ ’’ٹوپولوجی‘‘ (topology) یا ’’مقامیات‘‘ پر تحقیق سے حاصل کیں۔ اسی تحقیق کی بدولت معلوم ہوا کہ انتہائی باریک پرتوں والی حالت (thin film) میں بے حد کم درجہ حرارت یا شدید مقناطیسی میدان کے تحت مادّے کا برتاؤ اتنا عجیب و غریب کیوں ہوتا ہے؛ اور یہ کہ اس کیفیت میں وہ ایک سے دوسری حالت میں کیسے ’’قدم بہ قدم‘‘ منتقل ہوتے ہیں۔ اسکول میں مادّے کی تین حالتوں یعنی ٹھوس، مائع اور گیس کے بارے میں بتایا جاتا ہے لیکن مادّے کی کچھ غیرمعمولی اور عجیب و غریب حالتیں بھی ہوتی ہیں جو صرف بے حد کم درجہ حرارت پر یا انتہائی شدید مقناطیسی میدان کے تحت ہی وجود میں آسکتی ہیں۔ ان میں سپر کنڈکٹر، سپر فلوئڈز اور انتہائی باریک مقناطیسی فلمیں وغیرہ شامل ہیں۔ اتنے کم درجہ حرارت پر اس طرح کے مادّوں کا برتاؤ عام حالات کے مقابلے میں بہت مختلف اور پراسرار ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ موقعہ ہوتا ہے جب ’’کوانٹم فزکس‘‘ کے قوانین، عمومی کلاسیکی طبیعیات کے قوانین پر حاوی آجاتے ہیں۔ لیکن کوانٹم طبیعیات سے وابستہ ریاضی بذاتِ خود انتہائی پیچیدہ ہے جسے سمجھنے کےلئے ماہرین ایک مدت سے کوشش کررہے تھے لیکن انہیں کامیابی حاصل نہیں ہورہی تھی۔ مثلاً وہ اتنا تو جانتے تھے کہ انتہائی کم درجہ حرارت پر کچھ مادّوں میں مزاحمت بالکل ختم ہوجاتی ہے اور بجلی ان میں سے بلا روک ٹوک گزرنے لگتی ہے یعنی وہ ’’سپر کنڈکٹر‘‘ بن جاتے ہیں۔ لیکن ان کے پاس ایسا کوئی قابلِ بھروسہ ریاضیاتی ماڈل نہیں تھا جو اس بات کی پوری تفصیل سے وضاحت کرسکے۔ اس سلسلے میں ’’بی سی ایس تھیوری‘‘ کہلانے والا نظریہ بھی محدود طور پر کارگر تھا۔ ’’سپر فلوئڈ‘‘ کہلانے والے سیال مادّے (مائعات) بھی اپنی پراسراریت میں کچھ کم نہیں۔ یہ بھی بے حد کم درجہ حرارت پر وجود میں آتے ہیں اور اگر انہیں کسی پائپ کے اندر سے گزارا جائے تو یہ پائپ کی دیواروں سے چِپکے بغیر گزرتے چلے جاتے ہیں؛ جیسے انہیں رگڑ کی مزاحمت کا سامنا ہی نہ ہو۔ مخصوص حالات میں مادّے کے عجیب و غریب طرزِ عمل کو سمجھنے کےلئے ان تینوں ماہرین نے ٹوپولوجی کی جدید ترین تکنیکوں سے استفادہ کیا اور یہ بتایا کہ انتہائی باریک پرتوں والے مادّے میں (جس کی موٹائی صرف چند ایٹموں جتنی ہو) حرارت کا معمولی اتار چڑھاؤ بھی ایٹمی سطح پر اس کی ساخت کو متاثر کرسکتا ہے؛ چاہے اس کا درجہ حرارت انتہائی کم ہی کیوں نہ ہو۔ انہیں احساس تھا کہ ٹیکنالوجی کی تیز رفتار ترقی کے باعث روز بروز مادّے کی نت نئی اقسام سامنے آتی جارہی ہیں جبکہ مروجہ نظریات ان کی پوری وضاحت کرنے سے قاصر ہیں۔ 1970 اور بعد ازاں 1980 کے عشرے میں ان تینوں سائنسدانوں نے ٹوپولوجی کا سہارا لیتے ہوئے بتایا کہ ایٹمی پیمانے پر ان پراسرار مظاہر کی وجہ الیکٹرونوں کی ترتیب ہے جو حرارتی اتار چڑھاؤ کے معاملے میں انتہائی حساس ہوتی ہے۔ ٹوپولوجی کے استعمال سے وضع کئے گئے ان ہی جدید نظریات کے باعث ڈیوڈ تھولیس نے ’’کوانٹم ہال ایفیکٹ‘‘ نامی مظہر کی وضاحت فراہم کی اور بتایا کہ یہ اثر مسلسل ہونے کے بجائے درجہ حرات میں مخصوص وقفوں کے بعد ہی اپنی کیفیت کیوں تبدیل کرتا ہے۔ آج ان کے نظریات کئی میدانوں میں استعمال ہورہے ہیں اور سائنسدانوں کو اُمید ہے کہ مستقبل میں نت نئے مادّے تیار کرنے سے لے کر انتہائی جدید برقی آلات بنانے تک میں ان سے فائدہ اٹھایا جاسکے گا۔