خبرنامہ

’’ڈرون آرٹسٹ‘‘

ڈرون:(اے پی پی) ڈرون ٹیکنالوجی مختلف شعبوں میں کارآمد ثابت ہورہی ہے۔ اس ٹیکنالوجی سے لیس روبوٹ جنھیں عام زبان میں ڈرون طیارے اور کواڈ کوپٹر کہا جاتا ہے، اڑان بھرنے سے لے کر دیواروں پر چڑھنے، بیراگیری سے لے کر سمندر میں پیرا کی تک مختلف کام انجام دینے کے لیے استعمال ہو رہے ہیں اور ان کی مختلف شکلوں میں آزمائش کے بعد اب باقاعدہ کام لیا جارہا ہے۔ آپ کو یہ جان کر عجیب لگے گا کہ ڈرون اب مصوّری بھی کریں گے۔ اڑنے والے روبوٹ کو یہ صلاحیت میک گل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے بخشی ہے۔ مذکورہ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر پال کرائے کے مطابق ’ ڈرون آرٹسٹ‘ اب تک گریس کیلی سے لے کر چے گویرا تک کئی معروف شخصیات کے پورٹریٹ پینٹ کرچکا ہے۔ سائنس دانوں کا تیارکردہ ڈرون آرٹسٹ دراصل ہتھیلی جتنی جسامت رکھنے والا ایک کواڈ کوپٹر یعنی چار پنکھوں کی مدد سے اڑنے والا ڈرون ہے۔ اس طیارے کو اس طرح پروگرام کیا گیا ہے کہ یہ ’ اسٹپلنگ ٹیکنیک‘ سے کام لیتے ہوئے کینوس پر ننھے ننھے نقطوں کی مدد سے پورٹریٹ ابھار سکتا ہے۔ فی الحال سائنس داں اس’مصور‘ سے ہموار کینوس پر تصاویر پینٹ کروا رہے ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ وہ اس مشین کو ناہموار سطحوں پر بھی پینٹ کرنے کے قابل بنائیں گے۔ مصور کے ساتھ ساتھ یہ مشین ایک رنگ ریز کا کام بھی کرسکے گی۔ یوں مستقبل میں آرٹسٹ اور رنگ ریز، دونوں پیشوں سے تعلق رکھنے والوں کی چُھٹی ہوسکتی ہے! تحقیقی ٹیم کے مطابق کواڈ کوپٹر کو مصور بنانے کے لیے انھوں نے اسے ایک چھوٹے سے ہائی ٹیک آرم سے لیس کیا، پھر اس بازو کے اختتام پر اسفنج کا ٹکڑا لٹکایا جس میں دوات جذب تھی۔ ہائی ٹیک آرم سے کام لینے کے لیے محققین نے ایک الگورتھم بھی وضع کیا تھا، جس کے تحت دی گئی کمانڈ کے مطابق ڈرون کا ہاتھ حرکت کرتا ہے۔ ہر پورٹریٹ کے لیے ڈرون بہت کم سیاہی استعمال کرتا ہے۔ ہر بار کمانڈ ملنے کے بعد ڈرون اپنی مخصوص جگہ سے اڑتا ہے اور دیوار یا کینوس پر مطلوبہ بلندی تک پہنچ کر پروگرام کے مطابق نقطے ڈالنا شروع کردیتا ہے۔ یہ ڈرون چہرے کے خدوخال کے لحاظ سے نقطوں کی موٹائی بھی کم زیادہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ پروفیسر پال کرائے کے مطابق تصویر کے لحاظ سے نقطوں کی تعداد بھی مختلف ہوتی ہے۔ آنجہانی اداکارہ گریس کیلی کا پورٹریٹ ڈرون نے دو ہزار نقاط لگا کر مکمل کیا تھا۔ ہر ستّر نقاط لگانے کے بعد ڈرون کی بیٹری جواب دے جاتی ہے۔ بیٹری میں چارجنگ یا اسفنج میں انک کی مقدار کم ہونے پر ڈرون ازخود اڑتا ہوا اپنی مخصوص جگہ پر واپس اُتر جاتا ہے۔ بیٹری کی تبدیلی اور انک بھرنے کے بعد یہ دوبارہ اسی جگہ سے کام شروع کر دیتا ہے، جہاں بیٹری ختم ہونے کی وجہ سے چھوڑنا پڑا تھا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے اب ان کی توجہ ڈرون کو بڑے پلیٹ فارم پر قابل استعمال بنانے پر ہے۔ وہ اس سے ایک مصور کے ساتھ ساتھ رنگ ریز کا کام بھی لینا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے انھیں بڑی جسامت کا اور زیادہ طاقت وَر ڈرون درکار ہوگا جو رنگ کی بالٹی کو بھی ساتھ اٹھاسکے، اور برش کے ذریعے دیواروں، دروازوں اور کھڑکیوں پر رنگ کرسکے۔