خبرنامہ

ہونٹوں کی حرکت، آپ کا نیا پاس ورڈ

ہانگ کانگ: اسٹاک ہوم: (مانیٹرنگ ڈیسک) اگرچہ ایک روبوٹ حلق سے گزار کر معدے میں اتارنا کچھ عجیب لگتا ہے لیکن سوئزرلینڈ کے سائنسدانوں نے ایک ایسا قابلِ ہضم روبوٹ بنایا ہے جو ضرورت کے وقت جسم کے اندر دوا پہنچا سکتا ہے۔

سوئس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ای پی ایف ایل) نے روبوٹ کے تمام حصے ایک خاص ربر کے بنائے ہیں اور اب مکمل طور پر ہضم ہوجانے والے روبوٹ پر کام کررہے ہیں۔ اس گروپ کے سربراہ کے مطابق ’’قابلِ تناول‘‘ روبوٹ انسانوں اور جانوروں میں اپنے وقت پرخود کار انداز میں دوا خارج کرسکتے ہیں۔ مستقبل میں ایسے روبوٹ کو اس قابل بنایا جائے گا کہ وہ جسم کے اندر رینگ کر مطلوبہ جگہ پر دوا یا کھانا پہنچاسکیں۔

ماہرین کی ٹیم کے مطابق یہ روبوٹ ماحول دوست، جسم دوست، ازخود حیاتیاتی طور پر ختم ہونے والے ہوں گے اور کسی قسم کا زہریلا مواد خارج نہیں کریں گے۔ اس کے لیے خوردنی الیکٹرانکس اور کھائے جانے والے پالیمرز پر کام جاری ہے۔

ابتدائی روبوٹ صرف ساڑھے 3 انچ لمبا، 20 ملی میٹر چوڑا اور 17 ملی میٹر موٹا ہے۔ جسم کے اندر کیمیائی عمل سے یہ اپنی توانائی حاصل کرکے کام کریں گے۔ اس ایجاد کا مقصد غذا اور روبوٹ کو ملاکر ایک اہم شے بنانی ہوگی۔

فی الحال یہ روبوٹ خنزیر کی آنتوں کو سکھا کر بنایا گیا ہے جس مں بایو ڈی گریڈیبل پرت لگائی گئی ہے۔ جسم کے اندر گرم ہونے پر یہ روبوٹ آنت اور پیٹ میں آگے بڑھ سکتا ہے اور ایک بیرونی مقناطیس سے اس کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
وہ دن دور نہیں جب آپ کے ہونٹوں کی حرکت بھی پاس ورڈ کا کام کرے گی کیونکہ ہانگ کانگ کے ماہرین نے ایسی ٹیکنالوجی وضع کرلی ہے جو کسی صارف کو اس کے ہونٹوں کی حرکت کی بنیاد پر شناخت کرسکتی ہے۔

ہانگ کانگ باپٹسٹ یونیورسٹی میں کمپیوٹر سائنس ڈپارٹمنٹ کے ماہرین نے اس ٹیکنالوجی کا پیٹنٹ بھی حاصل کرلیا ہے جسے مارکیٹ میں متعارف کروانے کے لیے اب وہ کسی ادارے کی تلاش میں ہیں۔

’’بایومیٹرک آئیڈنٹی فکیشن‘‘ یعنی آواز، نشاناتِ انگشت (فنگر پرنٹس)، چہرے کے خد و خال اور آنکھ کی پتلی کی مدد سے افراد کو شناخت کرنے والے کئی نظام پہلے ہی سے استعمال میں ہیں جنہیں مسلسل خوب سے خوب تر بنایا جارہا ہے تاکہ تیز رفتاری کے علاوہ شناخت میں غلطی کا امکان بھی کم سے کم ہوتا جائے۔ ہونٹوں کی حرکت سے شناخت کی ٹیکنالوجی جسے ’’لِپ پاس ورڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے، انفرادی تحفظ کے سلسلے میں تازہ اضافہ قرار دی جاسکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ فنگر پرنٹس کی طرح ہونٹوں کی حرکت کا معاملہ بھی ہوتا ہے کیونکہ ہر شخص ایک مخصوص اور منفرد انداز سے اپنے ہونٹوں کو حرکت دیتا ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کیمرے، موشن سینسر (حرکت محسوس کرنے والا آلہ) اور ہونٹوں کی حرکت کا باریک بینی سے جائزہ لینے والے ایک الگورتھم پر مشتمل ہے جسے استعمال کرنے کے لیے پاس ورڈ کے الفاظ زبان سے ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ پاس ورڈ بولنے کے انداز میں ہونٹوں کو حرکت دینا ہی کافی ہوگا۔

یہ نظام ہونٹوں کی مخصوص انداز سے حرکت کو کھنگالتا ہے اور اپنے ڈیٹابیس میں پہلے سے محفوظ، متعلقہ فرد کے ’’لِپ موشن پاس ورڈ‘‘ سے ملاتا ہے اور ان دونوں کے یکساں ہونے پر صارف کو پہچان لیتا ہے ورنہ پہچاننے سے انکار کردیتا ہے۔

یہ ٹیکنالوجی اس لحاظ سے بھی زیادہ بہتر قرار دی جارہی ہے کیونکہ اس کا انحصار دنیا کی کسی زبان پر نہیں بلکہ صرف ہونٹوں کی حرکت پر ہے۔ علاوہ ازیں یہ انتہائی شور شرابے کے ماحول میں بھی یکساں طور پر کارآمد رہتی ہے کیونکہ اسے استعمال کرنے کے لیے صارف کو زبان سے کچھ بھی نہیں بولنا پڑتا۔ ایک بار شناخت ہوجانے کے بعد صارف بڑی آسانی سے اپنے ہونٹوں کی حرکت پر مشتمل نیا پاس ورڈ بھی دے سکے گا اور یوں وہ اپنے متعلقہ اکاؤنٹ کو زیادہ محفوظ بھی بناسکے گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ نظام بینکوں اور مالیاتی خدمات فراہم کرنے والے دوسرے اداروں کےلیے بطورِ خاص بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ ہر دور میں سیکیورٹی ان ہی اداروں کا سب سے بڑا مسئلہ رہی ہے۔ یہ نظام مارکیٹ میں کب دستیاب ہوگا، اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ یہ معاملہ کاروباری و تجارتی اداروں کی دلچسپی سے مشروط ہے۔