انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان سے تمام قرضوں کی شفاف تفصیل مانگ لی۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز وزیر خزانہ اسد عمر اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر طارق باجوہ نے انڈونیشیا کے جزیرے بالی میں آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لاگارڈ سے ملاقات میں مالی مدد کی باضابطہ درخواست دی تھی۔
اس موقع پر آئی ایم ایف سربراہ کرسٹین لگارڈ کا کہنا تھا کہ قرض دینے کے لیے دیکھا جاتا ہے کہ ملک کس نوعیت کا قرض لیے ہوئے ہے اور مزید کتنے قرض کا بوجھ برداشت کرسکتا ہے۔
کرسٹین لگارڈ نے کہا کہ قرضوں کی شفافیت اوران کے واضح ہونے کی شرط صرف پاکستان پر نہیں، اس کا اطلاق قرض مانگنے والے تمام ممالک پر ہوتا ہے، تاکہ قرضوں کی پائیداری سے متعلق اپنے رکن ممالک کا اتفاق حاصل کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ گورننس اور کرپشن کے حوالوں سے آئی ایم ایف بورڈ کے طے کردہ اصولوں کے سبب ہے، جن کا اطلاق کیا جا رہا ہے۔
کرسٹین لوگارڈ نے مزید کہا کہ آئی ایم ایف اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے سے متعلق بھی تکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے اور ادارے کی کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ رکن ممالک کو یہ معاونت فراہم کی جائے۔
قرض کی پاکستانی درخواست پر امریکا کی بھی نظریں
دوسری جانب آئی ایم ایف کو پاکستان کی جانب سے قرض کی درخواست پر امریکا کی بھی نظریں ہیں، جس کا کہنا ہے کہ قرضوں کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن کو ہر زوایئے سے دیکھا جائے گا۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ ہیدر نورٹ کا کہنا تھا کہ قرضوں کے حوالے سے پاکستان کی پوزیشن بھی دیکھی جائےگی۔ پاکستان اس حالت میں چینی قرضوں کے سبب بھی آیا۔ممکن ہےحکومتوں کا خیال ہو کہ بیل آؤٹ کے لیے یہ قرض اتنا بوجھل نہیں ہوگا، مگر اب سخت تر ہوتا جارہا ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف ٹیم چند ہفتوں میں مذاکرات کے لیے اسلام آباد آئے گی تاکہ ممکنہ معاشی سپورٹ پروگرام وضع کیا جاسکے۔
تاہم یہ بات واضح نہیں ہوسکی کہ اگر آئی ایف قرض دے گا تو کن شرائط پر دے گا اور آیا انہیں عوام کے سامنے لایا جائے گا یا نہیں۔
واضح رہے کہ حکومت کو اس سال اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے 8 سے 9 ارب ڈالر درکار ہیں تاہم حکومت اس پروگرام کو بیل آؤٹ پیکج کا نام نہیں دینا چاہتی۔