خبرنامہ

آٹو پارٹس کی آزاد تجارت سے اربوں کی سرمایہ کو نقصان کا خطرہ

کراچی: (ملت+اے پی پی) گاڑیوں کے پرزہ جات بنانے والی صنعت کا نمائندہ وفد تھائی لینڈ سے آزاد تجارت کے معاہدے میں آٹو سیکٹر کو شامل کیے جانے پر اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے کے لیے آج اسلام آباد میں وفاقی وزارت تجارت کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کرے گا۔ پاکستان میں گاڑیوں کے پرزہ جات بنانے والی صنعت کی نمائندہ انجمن پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررزایسوسی ایشن نے تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے میں گاڑیوں کے پرزہ جات کو شامل کیے جانے پر سخت موقف اختیار کرتے ہوئے اس تجویز کو پاکستانی انڈسٹری کے لیے سنگین خطرہ قرار دیا ہے۔ ایسوسی ایشن کے چیئرمین مشہود علی خان نے ایکسپریس کو بتایا کہ پاکستان کی آٹو انڈسٹری اس وقت ترقی کے ایک اہم موڑ سے گزر رہی ہے اور پانچ سالہ آٹو پالیسی میں انڈسٹری کی ترقی کے واضح اہداف مقرر کیے گئے ہیں جن کے حصول کے لیے اس پالیسی میں کسی بھی ردوبدل یا ترمیم کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور اس حوالے سے وفاقی وزارت تجارت کے ساتھ ہونے والے اجلاس میںبھی دوٹوک موقف پیش کیا جائے گا۔ پاکستان میں معاشی سرگرمیوں اور امن و امان کی بہتری کے ساتھ سی پیک کے ثمرات کے آغاز کے سبب گاڑیوں کی طلب میں نمایاں اضافہ دیکھا جارہا ہے اور آنے والے سال میں گاڑیوں کی طلب کو دیکھتے ہوئے پرزہ جات بنانے والی صنعت اپنی پیداواری گنجائش میں اضافہ اور نئے ماڈلز کے لیے بھاری سرمایہ کاری کررہی ہے۔ اس نازک وقت تھائی لینڈ کو پاکستان کی مارکیٹ میں آزادانہ انٹری کی اجازت دینے سے پاکستان کی پرزہ جات بنانے والی صنعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ پرزہ جات بنانے والی صنعت میں اب تک 4ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے اور مزید سرمایہ کاری کے منصوبے زیر غور ہیں۔ چیئرمین مشہود علی خان نے بتایا کہ ایسوسی ایشن کا وفد پیر کو اسلام آباد میں وفاقی وزارت تجارت کے اعلیٰ افسران سے ملاقات کرے گا اور انہیں تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے میں پاکستانی آٹو انڈسٹری کے خدشات سے آگاہ کیا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ تھائی لینڈ پاکستان میں تیار نہ ہونے والے پرزہ جات کے نام پر آزاد تجارت کے معاہدے میں آٹو سیکٹر کو شامل کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تاہم پاکستانی پالیسی سازاداروں کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستانی انڈسٹری اب تک بڑے والیوم کے انتظار میں مذکورہ نان یوٹیلائزیشن پارٹس تیار نہ کرسکی تاہم اب مقامی والیوم 2لاکھ 80ہزار یونٹس تک پہنچ چکا ہے۔ اس لیے بڑھتے ہوئے والیوم کو دیکھتے ہوئے نان یوٹیلائزیشن پرزہ جات کی مقامی سطح پر تیاری کے لیے بھی مختلف ملکوں کے ساتھ جوائنٹ وینچر ہورہے ہیں۔ تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے میں آٹو سیکٹر کو شامل کیے جانے کے بجائے تھائی لینڈ کی کمپنیوںکو پاکستانی انڈسٹری کے ساتھ جوائنٹ وینچر کرنے کی ترغیب دی جائے تو دونوں ملکوں کے تعلقات زیادہ مستحکم ہوسکتے ہیں۔ مشہود علی خان نے بتایا کہ پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹوموٹیو پارٹس اینڈ اسیسریز مینوفیکچررز ایسوسی ایشن تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے پر اپنے تحفظات تحریری شکل میں بھی وزارت تجارت کو ارسال کرچکی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے کی صورت میں پاکستانی انڈسٹری میں کی جانے والی اربوں روپے کی سرمایہ کاری ضائع ہوجائے گی اور ہزاروں افراد کا روزگار بھی داؤ پر لگ جائے گا، ساتھ ہی آٹوموٹیو ڈیولپمنٹ کے موجودہ پان سالہ پلان کے اہداف حاصل کرنا بھی ناممکن ہوجائے گا۔ اس پلان کا ایک اہم ہدف پرزہ جات کی مقامی سطح پر تیاری اور میڈ ان پاکستان گاڑی کے تصور کو یقینی بنانا ہے تاہم تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے میں آٹو انڈسٹری کو شامل کیے جانے کی صورت میں پرزہ جات اور گاڑیوں کی لوکلائزیشن کا عمل رک جائے گا۔ پاکستان اس وقت بھی زیادہ تر سی کے ڈی پرزہ جات تھائی لینڈ سے درآمد کررہا ہے تاہم ان پر قومی خزانے کو ڈیوٹی اور ٹیکسز کی مد میں بھاری محصولات حاصل ہوتے ہیں۔ آزاد تجارت کے معاہدے کی صورت میں سی کے ڈی پر ڈیوٹی ختم ہونے سے خود حکومت کو ہی محصولات کی مد میں خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آٹو پالیسی میں نئے سرمایہ کاروں کو دی جانے والی مراعات کے پیش نظر پاکستان کی آٹو انڈسٹری میں سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں اور پہلے سے گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں نے سال 2017سے 2019کے درمیان مزید نئے ماڈلز متعارف کرانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں، دوسری جانب یورپ، کوریا اور چین کی متعدد کمپنیاں پاکستان میں پلانٹ لگانے جارہی ہیں جن میں ہونڈائی، رینالٹ، کیا، ایف اے ڈبلیو(فوا) سمیت دیگر چینی کمپنیاں شامل ہیں۔ تھائی لینڈ کے ساتھ آزاد تجارت کے معاہدے میں آٹو سیکٹر کو شامل کیے جانے سے نہ صرف پہلے سے موجود اسمبلرز کی سرمایہ کاری متاثر ہوگی بلکہ نئے سرمایہ کاروں کا اعتماد بھی متاثر ہوگا۔