خبرنامہ

بدلتے رجحانات، کاغذی ادائیگیوں پر انحصار کم

کراچی:(ملت+اے پی پی) دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی نئی ٹیکنالوجی اور جدید آلات آنے کی وجہ سے شاپنگ کے ساتھ ادائیگیوں کے رجحانات بھی تیزی سے بدل رہے ہیں، مختلف وجوہ کی بنا پر صارفین کا کاغذی ادائیگیوں پر انحصارکم ہونے لگا جبکہ ای بینکنگ سمیت مختلف متبادل آپشنز کو فروغ مل رہا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نیڈیجیٹل/ برقی ذرائع سے ادائیگیوں کے حجم اور مالیت میں مسلسل تیزی کے رجحان کو خوش آئند اور ملک میں ڈیجیٹل ادائیگیوں کو فروغ دینے کے لیے بینک دولت پاکستان کے وژن سے ہم آہنگ قرار دیا ہے۔ گزشتہ روز جاری رپورٹ کے مطابق اگرچہ مالی سال 2015-16 میں کاغذ پر مبنی لین دین کے حجم میں 6 فیصد کمی آئی لیکن اب بھی مجموعی خردہ ادائیگیوں میں اس کا حصہ تقریباً 38 فیصد ہے، اس دوران ای بینکاری لین دین کے حجم میں 16 فیصد اور مالیت میں 4 فیصد اضافہ ہوا، اسی طرح، بروقت (ریئل ٹائم) آن لائن بینکاری لین دین کاحجم 19 فیصد کے اضافے سے 135.4 ملین اور مالیت 2 فیصد بڑھ کر 32.3 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی، متبادل ڈلیوری چینلز (اے ڈی سیز) بشمول اے ٹی ایمز، پی او ایس ٹرمینلز، انٹرنیٹ اور موبائل بینکنگ کے رجحانات میں بھی اضافہ ریکارڈ کیاگیا۔ ایک سال میں پی اوایس ٹرمینلز پر16 فیصد کے اضافے سے 200 ارب روپے کی 3کروڑ92لاکھ (یعنی 22 فیصدزائد) ٹرانزیکشنز ہوئیں، اسی طرح انٹرنیٹ بینکنگ کا حجم 18فیصد اور قدر 10فیصد بڑھی جبکہ موبائل بینکنگ سے 8فیصد اضافی لین دین ہواتاہم اس کی مالیت 5فیصد بلند ہوئی، ایک سال میں ادائیگی کے نظام کے بنیادی ڈھانچے میں نمایاں ترقی ہوئی، بینک برانچز 11ہزار937 سے بڑھ کر 13ہزار 179 اور اے ٹی ایمز 9ہزار597 سے بڑھ کر 11ہزار 381 ہوگئیں، دوسری طرف پی او ایس ٹرمینلز 9 ہزار 586 اضافے سے 50ہزار769 ہوگئے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ آر ٹی جی ایس کے ذریعے بڑی مالیت کے لین دین کا حجم اور مالیت گزشتہ مالی سال کے دوران بالترتیب 9لاکھ 30ہزار 501 اور 231.7 ٹریلین روپے تک پہنچ گئی جو سال 2014-15 کے مقابلے میں حجم اور مالیت کے لحاظ سے بالترتیب 21 اور 29 فیصدزائد ہے۔ مستقبل کیلیے اسٹیٹ بینک دوجہتی حکمت عملی پر کام کر رہا ہے تاکہ عوام برقی اورڈیجیٹل ادائیگی کا طریقہ اختیار کریں، اول آلات (کارڈ اور ویلٹ)، مقامات رسائی (اے ٹی ایمز، پی اوایس و موبائل ڈیوائسز) اور مرکزی ادائیگی پروسیسرز (سوئچز وگیٹ ویز) پر مشتمل 3مختلف سطحوں پر بنیادی ڈھانچے کی توسیع اور دوسرا مذکورہ ادائیگی ڈھانچے کے تحفظ واستحکام کو یقینی بنانے کیلیے ریگولیٹری اور نگرانی کے فریم ورکس کو مضبوط بنانا ہے جس کے نتیجے میں عام صارفین کا ادائیگی کے متبادل طریقوں پر بھروسہ اور اعتماد بڑھے گا۔