کراچی:(اے پی پی) وفاقی وزارت تجارت اور اس کے ماتحت اداروں کی ناقص حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان یورپی یونین کی جی ایس پی پلس کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایکسپورٹ بڑھانے میں ناکام ہے دوسری جانب مختلف ملکوں کے ساتھ کیے گئے آزاد تجارت کے معاہدے گرتی ہوئی برآمدات کو سنبھالا دینے میں ناکام ہیں۔ ماہرین کے مطابق وزارت تجارت اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ایکسپورٹرز سے حاصل شدہ ایکسپورٹ ڈیولپمنٹ فنڈ کو تشہیری سرگرمیوں کے ذریعے ٹھکانے لگانے میںزیادہ دلچسپی رکھتے ہیں اور پاکستانی مصنوعات کے بجائے پاکستان کی ثقافت اور فیشن انڈسٹری کو تجارتی نمائشوں کے نام پر فروغ دینے کی پالیسی اختیار کی گئی ہے۔برآمدات کے شعبے کو درپیش بنیادی چیلنجز پروڈکٹ ڈیولپمنٹ، برانڈنگ اور حریف تجارتی ملکوں کے مقابلے میں زیادہ لاگت کو کم کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی جس کی وجہ سے پاکستانی برآمدات مسلسل کمی کا شکا رہیں۔ یکم جنوری 2014 سے یورپی یونین کی جانب سے دی جانے والی جی ایس پی پلس کی سہولت سے فائدہ اٹھاکر پاکستانی مصنوعات کو یورپی ملکوں میں فروغ کی حکمت عملی نہ ہونے کی وجہ سے یورپی یونین ملکوں میں پاکستانی برآمدات میں نمو کی شرح بھی انتہائی محدود ہے، پاکستان کے برعکس بنگلہ دیش نے یورپی یونین ملکوں کی منڈی میں تیزی سے مقام حاصل کیا ہے۔ 2006سے 2015 کے دوران یورپی یونین کو بنگلہ دیش کی برآمدات میں 12ارب 19کروڑ ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ 2006 میں یورپی یونین کو بنگلہ دیشی برآمدات کا حجم 7.65ارب ڈالر تھا جو 2015تک بڑھ کر 19.84ارب ڈالر کی سطح تک پہنچ چکا ہے تاہم اسی عرصے کے دوران پاکستانی مصنوعات کی برآمدات میں صرف 2.7 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے۔ سال 2006تک پاکستان کی یورپی یونین کو برآمدات کا حجم 4.6ارب ڈالر تھا جو 2015تک بڑھ کر 7.3ارب ڈالر تک پہنچ سکا ہے۔ ویتنام کو جی ایس پی پلس کی سہولت حاصل نہ ہونے کے باوجود ویتنام کی ایکسپورٹ 36ارب ڈالر جبکہ بھارتی برآمدات کا حجم 46 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے۔پاکستان نے دوست ملکوں کے ساتھ تجارت بڑھانے کے لیے تین آزاد تجارت کے معاہدے اور تین ترجیحی تجارت کے معاہدے طے کیے ہیں۔ سری لنکا سے آزاد تجارت کا معاہدہ 2005، چین کے ساتھ 2006 اور ملائشیا کے ساتھ 2008میں نافذ العمل ہوا جبکہ انڈونیشیا کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ 2013 ماریشس کے ساتھ 2007اور ایران کے ساتھ ترجیحی تجارت کا معاہدہ 2004میں طے کیا گیا۔