خبرنامہ

سپریم کورٹ کا پی ایس او کے 3 سالہ آڈٹ کا حکم

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کے گزشتہ 3 برس کے دوران رائج رہنے والے قیمتوں کے تعین کے طریقہ کار کے آڈٹ کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے غیر معمولی ٹیکس اور پیٹرولیم مصنوعات سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے مختلف محکمہ جات کے سربراہان کے خلاف تحقیقات کا حکم بھی دیا جن میں پی ایس او کے مینیجنگ ڈائریکٹر شیخ عمران الحق بھی شامل ہیں۔

رواں برس یکم جولائی کو نگراں حکومت نے پیٹرول کی قیمت میں 7.54 روپے اضافہ کیا تھا جس کے ساتھ ہی پیٹرول کی قیمت 99.50 روپے ہوگئی تھی جبکہ 14 روپے اضافے کے ساتھ ڈیزل کی قیمت میں 119.3 روپے، اور مٹی کے تیل کی قیمت 3.36 روپے اضافے کے ساتھ 87.7 روپے فی لیٹر ہوگئی تھی۔

سپریم کورٹ نے اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا تھا، جس کے بعد نگراں وفاقی کابینہ نے 7 جولائی کو ایک اجلاس منعقد کیا جس میں پیٹرول کی قیمت میں 4.26 روپے کمی جبکہ ڈیلز کی قیمت میں 6.37 روپے کی کمی کی منظوری دی۔

عدالتِ عظمیٰ نے آڈٹ کرنے کے لیے شرائط (ٹی او آر) کی بھی منظوری دی، تاہم یہ آڈٹ ایک بین الاقوامی نجی ٹیکس فرم ’کے پی ایم جی‘ کرے گی۔

8 جولائی کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کے حوالے سے طریقہ کار کا مکمل جائزہ لینے کے عزم کا اظہار کیا تھا تاکہ پیٹرول کی قیمت کا مکمل جائزہ لیا جائے اور بات کا اطمینان کیا جائے کہ صارفین کے لیے پیٹرول کی قیمت حقیقی ہے اور اس میں کسی بھی طرح کے پوشیدہ کمیشن اور کِک بیک شامل نہیں۔

منظور شدہ ٹی او آر نے آڈیٹرز سے پی ایس او کی جانب سے فرخت ہونے والے موٹر آئل، ہائی اسپیڈ ڈیزل اور فرنس آئل کی قیمت کے طریقہ کار کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا۔

سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان عدالت سے درخواست کی کہ وہ آئل ریفائنریز کو ملک میں درآمد ہونے والے تیل کے معیار کے حوالے سے نوٹس جاری کرے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ملک میں درآمد کیا جانے والا تیل ’رون-92‘ ہے جبکہ ایک معروف آٹو موبائل کمپنی کی جانب سے پاکستان میں درآمد ہونے والے تیل کے معیار پر شکایت سامنے آئی ہے۔

یہ الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں کہ پاکستان میں درآمد ہونے والے تیل کا معیار ایران سے اسمگل ہوکر پاکستان آنے والے تیل سے بھی خراب ہے۔