خبرنامہ

سی پیک 110 ارب ڈالر کا ہوگیا، پاکستان کیلیے چند لاکھ امریکی ڈالر غیر اہم ہو گئے

سی پیک 110 ارب ڈالر کا ہوگیا، پاکستان کیلیے چند لاکھ امریکی ڈالر غیر اہم ہو گئے

واشنگٹن:(ملت آن لائن) سی پیک کا مالیاتی حجم 110 ارب ڈالر تک پہنچنے کے بعد امریکا کے چند لاکھ ڈالروں کی پاکستان کیلیے کوئی حیثیت نہیں رہی۔

جنوبی ایشیائی امور کے ماہر اور امریکی مصنف روبرٹ ہیتھ وے نے انکشاف کیا ہے کہ سی پیک کا مالیاتی حجم 110 ارب ڈالر تک پہنچنے کے بعد امریکا کے چند لاکھ ڈالروں کی پاکستان کیلیے کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی تاہم امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان کبھی اپنی سالمیت خطرے میں نہیں ڈالے گا چاہے امریکی امداد ہی داؤ پر کیوں نہ لگ جائے۔

روبرٹ ہیتھ وے نے اپنی تصنیف میں انکشاف کیاہے کہ امریکی دباؤ کے باوجود پاکستان کبھی اپنی سالمیت خطرے میں نہیں ڈالے گا چاہے اس کے لیے امریکی امداد ہی داؤ پر کیوں نہ لگ جائے۔ پاک امریکا تعلقات پر مبنی کتاب ’دی لیوریج پیراڈوکس‘ میں پاکستان اور امریکا میں50کی دہائی سے امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ کے دور میں دونوں ممالک کے تعلقات کا احاطہ کیا گیا ہے۔
کتاب میں کہا گیاہے کہ پاکستان نے ہمیشہ اس فائدے کو دیکھا جو امریکا کے حق میں رہا جب کہ مصنف نے ٹرمپ کی21اگست والی تقریر میں افغانستان کے لیے نئی امریکی حکمت عملی کا خصوصی تذکرہ کیا۔

مذکورہ تقریر میں ٹرمپ نے کہا تھاکہ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دے رہے ہیں اور اسی دوران وہ دہشت گروں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کررہا ہے لیکن اب اس کو بدلنا ہوگا اور یہ بہت جلد ہوگا۔ بعدازاں امریکا کے نائب وزیراعظم مائیک پنس نے لکھاکہ امریکا نے پاکستان کو نوٹس پر رکھا ہوا ہے۔

مصنف نے 2 وجوہ کی بنا پر ٹرمپ پالیسی کو خطرناک قرار دیا ہے، پہلا یہ کہ افغانستان میں جنگ ختم کرنے کے لیے کسی سنجیدہ مذاکرات کی کوشش نہیں کی جارہی جبکہ دوسری جانب پاکستان کے لیے ٹرمپ کی خاموشی سے پاکستان یہ نتیجہ اخذ کررہا ہے کہ افغانستان کے معاملے میں غیرجانبداری اختیار کرلی جائے۔ پاکستان کے لیے مزید پریشان کن صورتحال یہ رہی کہ ٹرمپ نے افغانستان میں اقتصادی اور ترقیاتی منصوبوں میں بھارت کی عمل داری کی بھرپور حمایت کی۔

مصنف نے بتایاکہ ٹرمپ کے بیان کے فوراً بعد اسلام آباد نے واضح کردیا کہ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامی پر پاکستان کو قربانی کا بکرا نہ بنائے۔ مصنف نے اپنی کتاب میں امریکا کو تجویز دی ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ پاکستان کی اہمیت کو نظر انداز نہ کرے۔

مصنف نے تجویز پیش کی کہ امریکا کو اپنی ترجیحات کا تعین کرنا ہوگا اور ممالک کی داخلی ترقی پر توجہ کو مرکوز رکھنا چاہیے۔ انھوں نے ٹرمپ کو تجویز دی کہ طاقتور کی حیثیت سے بات چیت کریں اور میز پر فوجی قوت نہ لائیں جبکہ مذاکرات سے دور ہونے سے مت ڈریں کیوںکہ دوسری پارٹی کو آپ سے زیادہ مذاکرات کی ضرورت ہے۔