خبرنامہ

فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی میں مالی و انتظامی بے قاعدگیاں

فشرمین کوآپریٹو

فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی میں مالی و انتظامی بے قاعدگیاں

کراچی:(ملت آن لائن) نیب کی جانب سے فشرمین کوآپریٹوسوسائٹی میں کرپشن کے حوالے سے جاری تحقیقات کے باوجود ادارے میں اختیارات کا ناجائزاستعمال، مالی وانتظامی بے ضابطگیاں اور سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں جاری رہنے کی شکایات برقرار ہیں۔ ادارے کے وائس چیئرمین سمیت3 ڈائریکٹرز نے موجودہ انتظامیہ کے دور میںکروڑوں روپے کے اخراجات و ٹھیکوں اور بھرتیوں کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے اس کا ذمے دار موجودہ چیئرمین کو قرار دے دیا ہے جبکہ سوسائٹی کے چیئرمین نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ کرپشن اور چوری میں ملوث لوگ ان پر جھوٹے الزامات لگارہے ہیں، وائس چیئرمین سمیت بورڈکے3 ڈائریکٹرز نے26 جنوری کو ایک خط لکھ کر ٹریش فش پرکمیشن کی وصولی کے لیے جاری کیے گئے ٹینڈر پر سخت اعتراضات کرتے ہوئے اسے غیر قانونی قرار دیا۔

وائس چیئرمین ابوذر ماڑی والا، محمد حنیف اور حبیب اللہ کے دستخط سے لکھے گئے خط میں کہا گیاہے کہ 19جنوری کو شایع کرائے جانے والے مذکورہ اشتہارکی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ اس کی بورڈ سے منظوری حاصل نہیںکی گئی، ڈائریکٹرز نے چیئرمین فشرمین کوآپریٹیو سوسائٹی عبدالبر سے مذکورہ ٹینڈر واپس لینے کا مطالبہ کردیا۔ چیئرمین عبدالبر کا کہناہے کہ مذکورہ ٹینڈر دینے کا فیصلہ2006-07 میں ہوا تھا جب وائس چیئرمین ابوذرکے بھائی ابوبکر ڈائریکٹر تھے جنھوں نے اپنے مفادات کے تحت وہ ٹینڈر رکوایا ہوا تھا۔
دریں اثنا فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی ایمپلائزیونین نے بھی محکمہ کوآپریٹو سوسائٹیز سندھ اور دیگر متعلقہ حکام کو خطوط ارسال کیے ہیں جن میں ادارے میں مبینہ طور پر جاری مالی و انتظامی بے ضابطگیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیاہے، سی بی اے یونین کے جنرل سیکریٹری کی جانب سے لکھے گئے مذکورہ خطوط میں دیگر معاملات کے علاوہ موجودہ انتظامیہ کے دور میں فش مارکیٹ لیکیج کے باعث ادارے کی آمدنی میں مسلسل کمی کا ذکر کیا گیا ہے۔

چیئرمین عبدالبر کو ارسال کیے گئے ایک خط میں2015 اور 2017 کے 3 ماہ کی آمدنی کا موازنہ پیش کیا گیا ہے، مذکورہ خط میں دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق ستمبر2015 میں اس مد میں ادارے کی آمدنی6 کروڑ 70 لاکھ تھی جو ٹھیک 2 سال بعد یعنی اکتوبر 2017 میں کم ہوکر 4 کروڑ 20 لاکھ روپے رہ گئی، اسی طرح اکتوبر2015 میں آمدنی تقریباً 6 کروڑ 2 لاکھ روپے تھی جو اکتوبر 2017 میں کم ہوکر 4 کروڑ 47 لاکھ روپے رہ گئی، نومبر 2015 میں آمدنی 5 کروڑ 63 لاکھ تھی جو نومبر 2017 میں3 کروڑ 65 لاکھ روپے تک آگئی۔

چیئرمین عبدالبر نے آمدنی میں کمی کا بڑا سبب جیٹی پر کم لانچوں کی لینڈنگ قرار دیاہے، ان کا کہنا تھاکہ چینل پر لانچوں کی بہتات کے باعث ایک لانچ کو جیٹی تک پہنچنے میں3 دن لگ جاتے ہیںجس کے باعث مچھلی کا ریٹ صحیح نہیں ملتا۔

ایک سوال پر چیئرمین نے کہا کہ سوسائٹی میں سی بی اے یونین کا کوئی وجود نہیں ہے۔ ادارے کے چیئرمین اور وائس چیئرمین کے درمیان بے اعتمادی اس حد تک بڑھ چکی ہے کہ چیئرمین نے بیرون ملک چھٹی پر جاتے وقت وائس چیئرمین کو اپنے تمام اختیارات دینے سے گریز کیا اور روزمرہ کے معاملات چلانے کے لیے وائس چیئرمین کو مشروط طور پر محدود اختیارات تفویض کیے، وائس چیئرمین نے اس عمل کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے حکومت سندھ کو تحریری شکایت ارسال کی کہ قانون کے تحت چیئرمین کی غیرموجودگی میں وائس چیئرمین کو تمام اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔

چیئرمین عبدالبر کا کہنا ہے کہ وہ صرف10دن کے لیے چھٹی پر گئے تھے اس عرصے میں وائس چیئرمین تمام اختیارات استعمال کرکے آخرکار کیا کرنا چاہتے تھے۔ واضح رہے کہ چیئرمین عبدالبر نے 20 دسمبر 2017 سے 2ہفتے کی چھٹی پر امریکا جانے سے پہلے ادارے کے تمام افسران کو ایک تحریری خط جاری کیا جس میں انھیں آگاہ کیا گیا کہ ان کی غیر موجودگی کے دوران ماہی گیروں کے فلاح و بہبودکے لیے ویلفیئر اکاؤنٹ سے10لاکھ روپے سے زائد خرچ نہیں کیے جاسکتے۔

ادارے کے انتظامی معاملات جوںکے توں رکھے جائیں گے اور اس دوران کوئی تبادلے و تقرریاں اور ترقیاں نہیں کی جائیںگی اور نہ ہی پچھلے احکام کو واپس لیا جائے گا، اس دوران ادارے کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے سوسائٹی کے منیجر کے پاس 2لاکھ روپے کی رقم دستیاب ہوگی جبکہ اس دوران تنخواہوں اور یوٹیلٹی ادائیگیوں کے علاوہ کوئی اخراجات نہیں کیے جائیں گے۔

چیئرمین کے چھٹی پر جانے کے بعد وائس چیئرمین ابوذر ماڑی والا نے4جنوری کو رجسٹرار کوآپریٹیو سوسائٹیز حکومت سندھ کو ایک تحریری شکایت ارسال کی کہ سوسائٹی کے بائی لازکے تحت چیئرمین کی غیر موجودگی میں وائس چیئرمین ان کے تمام اختیارات استعمال کرنے کامجاز ہوتا ہے، وائس چیئرمین کے اختیارات پر پابندیاں عائد کرنا غیر قانونی عمل ہے اس لیے چیئرمین کی جانب سے جاری کردہ مذکورہ حکم نامہ منسوخ کیا جائے۔ امریکا سے واپس آنے پر چیئرمین عبدالبر نے9جنوری کو وائس چیئرمین ابوذر ماڑی والا کوخط لکھا کہ وہ خود پیش ہوکر اس بات کی وضاحت کریںکہ ان کی غیر موجودگی میں انھوں نے تفویض کیے گئے اختیارات استعمال کیوں نہیں کیے۔

وائس چیئرمین نے16جنوری کو اپنے جواب میں رجسٹرار کوآپریٹو سوسائٹیز سندھ کو لکھے گئے اپنے خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا کہ انھوں نے ان کی غیر موجودگی میں فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے بائی لاز میں وائس چیئرمین کے اختیارات سے متعلق موجود شق نمبر 46 پر سختی سے عمل کیا ہے۔ 19جنوری کو وائس چیئرمین نے چیئرمین عبدالبر کے نام ایک اور خط لکھ کر ان سے مطالبہ کیاکہ2مئی2017 سے ان کے چیئرمین بننے سے اب تک کیے گئے تمام مالی اخراجات کی تفصیل مہیا کی جائے۔

وائس چیئرمین نے اسی تاریخ کو چیئرمین کے نام ایک اور خط لکھ کر16جنوری کو منعقدہ ڈپارمنٹل پروموشن کمیٹی کے اجلاس پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور چیئرمین پر الزام عائد کیاکہ انھوں نے کمیٹی کے اجلاس سے قبل ہی من پسند لوگوں کو پروموشن اور انکریمنٹ دے دیے تھے، ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین عبدالبر نے اس الزام کی تردید کی اور کہاکہ ان کے دور میں کسی پروموشن اور انکریمنٹ کی منظوری نہیں دی گئی۔

24 جنوری کو لکھے گئے ایک خط میں وائس چیئرمین سمیت فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی کے3 ڈائریکٹرز نے ادارے کے بعض ٹھیکوں، ترقیاتی کاموں اور بھرتیوں سے متعلق بورڈ کے فیصلوں پر اعتراض کیا، اس خط پر وائس چیئرمین ابوذر ماڑی والا کے علاوہ2 ڈائریکٹرز محمد حنیف اور حبیب اللہ کے دستخط ہیں، مذکورہ خط میں کہا گیاکہ انھوں نے27 جولائی2017 کے اجلاس کے منٹس کی منظوری نہیں دی تھی جبکہ 13 دسمبر 2017 کو منعقدہ بورڈ میٹنگ میں کسی بھی قسم کے اخراجات کی منظوری بھی نہیں دی گئی تھی، اسی طرح فش مارکیٹ، جیٹی اور آفس سمیت کسی بھی جگہ کی تزئین و آرائش کرانے کی بھی منظوری نہیں دی اور نہ ہی اس سے پہلے اشتہار، کوٹیشن اور ورک آرڈر جاری کیے گئے۔

مذکورہ خط میں انھوں نے جیٹی اور مارکیٹ پر کرائے گئے113ملین روپے کے اخراجات سے متعلق فیصلوں پر بھی عدم اعتماد کا اظہار کیا، خط میں لکھا گیا کہ بورڈ کے اجلاس میں3 منیجرزکو کنٹریکٹ پر بھرتی کرنے اور درکار بقیہ اسٹاف موجودہ مستقل ملازمین سے لینے کی تجویز دی گئی لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔