خبرنامہ

مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے بجٹ خسارے میں غلط بیانی کا انکشاف

مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے بجٹ خسارے میں غلط بیانی کا انکشاف
اسلام آباد:(ملت آن لائن) وفاقی حکومت نے مالیاتی نظم و ضبط یقینی بنانے کی جھوٹی امیدیں دلانے کے بعد گزشتہ روز تسلیم کر لیا کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں اصل بجٹ خسارہ 431 ارب تھا جو گزشتہ ماہ اعلان کردہ اعداد و شمار سے ایک تہائی زیادہ ہے۔ وزارت خزانہ کی طرف سے جاری بیان کے مطابق حتمی اعدادو شمار کی بنیاد پر جولائی سے ستمبر 2017کے درمیان مجموعی مالیاتی خسارہ قومی پیداوار کا 1.2فی صد ہے جو431ارب روپے بنتا ہے جبکہ 9اکتوبر کو وزارت خزانہ نے حیران کن طور پر دعویٰ کیا تھا کہ پہلی سہ ماہی کا بجٹ خسارہ 0.9فی صد ہے جو 324ارب روپے کے مساوی بنتا ہے۔ 1.2فی بجٹ خسارہ 4.1کے سالانہ ہدف سے مطابقت نہیں رکھتا اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گزشتہ مالی سال کی طرح اس بار بھی حکومت مالی خسارے کے ہدف کو بھاری فرق سے حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔
نئے جاری کردہ اعداد و شمار پرانے اعداد و شمار کے مقابلے میں اندازا 33فی صد یا 107ارب زیادہ ہیں۔ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے عبوری اعداد و شمار کا اعلان کرنے کا فیصلہ قبل از وقت کر لیا تھا اگرچہ ایسے اشارے پہلے سے موجود تھے کہ بجٹ خسارہ نمایاں طور پر زیادہ ہو گا۔ اکتوبر میں وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ اس نے وفاقی ترقیاتی اخراجات پر قابو پانے کے ذریعے مجموعی بجٹ خسارے کو 324ارب روپے تک محدود کرنے کا انتظام کر لیا ہے۔وزارت خزانہ کے ترجمان کی طرف سے جاری ہونے والے حتمی اعدادوشمار کے مطابق مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں مجموعی وفاقی و صوبائی محاصل 1025 ارب روپے رہے ہیں جوگزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں18.9 فیصدزیادہ ہیں۔
دوسری جانب ایف بی آرکی ٹیکس وصولیاں20 فیصد اضافہ کے ساتھ756 ارب روپے ریکارڈکی گئیں جبکہ نان ٹیکس وصولیاں114 ارب رہیںجوگزشتہ سال کے اسی عرصہ کے مقابلہ میں زیادہ ہیں،مجموعی اخراجات کاحجم1466 ارب روپے ہے جن میںسے جاری اخراجات1241 ارب اور ترقیاتی اخراجات221 ارب روپے ہیں،ترجمان کے مطابق جولائی تاستمبر2017ء کیلیے مالیاتی فرق 4 ارب روپے رہاہے جوگزشتہ سال کے اسی عرصے میں38 ارب تھا جب کہاسٹیٹ بینک کے پاس وفاقی حکومت کے ڈیپازٹس میں بھی ستمبر کے دوران کمی آئی۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ میڈیا کے ایک حصے نے رواں مالی سال کے پہلے دو ماہ کے اعداد و شمار کی بنیاد پر حکومت کی مالیاتی کارکردگی کے بارے میں ازخود نتائج اخذ کر لیے تھے۔
اس حوالے سے وضاحت کی جاتی ہے کہ دو مہینوں کے اعداد و شمار کی بنیاد پر قرضے سے متعلق شماریات کا تجزیہ کرنا درست نہیں۔ اب متعلقہ اداروں بشمول اقتصادی امور ڈویژن، بجٹ ونگ، نیشنل سیونگز اور اسٹیٹ بینک سے رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی کے مجموعی اعداد و شمار موصول ہو چکے ہیں جن سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ بعض ناقدین کی جانب سے پیش کیے گئے اندازوں کے مقابلے میں سرکاری قرضوں میں اضافہ بہت کم رہا ہے۔