اسلام آباد:(ملت آن لائن) وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہےکہ اسٹیٹ بینک اپنے طور پر فیصلے کررہا ہے اور مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان پر غیر ملکی قرضے 95 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے، ہم نے ڈالر سستا کرکے اپنی پیداوار تباہ کرلی، پاکستان ڈالر سستا کرنے کی وجہ سے گندم برآمد نہیں کرسکتا، ڈالر سستا کرنے سے انٹرنیشنل پیداواری یونٹ کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، پاکستان میں ڈالر سستا ہونے کی وجہ سے جوتا بننا بند ہوگیا اور ٹیکسٹائل برباد ہوگئیں، ٹیکسٹائل یونٹ کباڑ دام بک گئے، ڈالر سستا ہونے کی وجہ ترسیلات زر بڑھیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 19 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، ڈالر کا معاملہ طلب اور رسد سے جڑا ہوا ہے، ڈالر کی طلب زیادہ ہے اور دستیاب کم ہے، ماضی میں مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر برقرار اور ڈالر کی کم رکھی جاتی تھی مگر اسٹیٹ بینک اب اپنے طور پر فیصلے کررہا ہے اور مصنوعی طریقے سے اسٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے زراعت اور صنعت کو مستحکم کرنا ہے، ابھی بہت کام کرنےکی ضرورت ہے لیکن صحیح سمت نظر آنا شروع ہوگئی ہے، عوام کے لیے مشکلات ہیں لیکن ہماری پالیسیوں کی وجہ سے جلد بہتری آئے گی۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ پاکستان کے ٹیکس پیئرکے پیسے سے غیر ملکی تاجر کو سبسڈی دی گئی، قرضے روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے گئے، پچھلے چار سال میں ایکسپورٹ انڈسٹریز بند ہوئی ہیں، ہم نے اپنا روزگار ایکسپورٹ کردیا، اس کا نقصان ہماری انڈسٹری کو ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی کا منفی اثر ہوتا ہے لیکن روپے کی قدر میں کمی کا آئی ایم ایف پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم آئی ایم ایف پروگرام میں جانا نہیں چاہتے، ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہواہے، سرمایہ کاری بھی بڑھ رہی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی مثبت پیش رفت ہورہی ہے اور مختلف ممالک سے بڑی بڑی سرمایہ کاری بھی جلد نظر آئے گی۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہےکہ اسٹیٹ بینک اپنے طور پر فیصلے کررہا ہے اور مصنوعی طریقے سے ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ پاکستان پر غیر ملکی قرضے 95 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے، ہم نے ڈالر سستا کرکے اپنی پیداوار تباہ کرلی، پاکستان ڈالر سستا کرنے کی وجہ سے گندم برآمد نہیں کرسکتا، ڈالر سستا کرنے سے انٹرنیشنل پیداواری یونٹ کو فائدہ پہنچایا جا رہا ہے، پاکستان میں ڈالر سستا ہونے کی وجہ سے جوتا بننا بند ہوگیا اور ٹیکسٹائل برباد ہوگئیں، ٹیکسٹائل یونٹ کباڑ دام بک گئے، ڈالر سستا ہونے کی وجہ ترسیلات زر بڑھیں گی۔
انہوں نے کہا کہ پچھلے سال 19 ارب ڈالر کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تھا، ڈالر کا معاملہ طلب اور رسد سے جڑا ہوا ہے، ڈالر کی طلب زیادہ ہے اور دستیاب کم ہے، ماضی میں مصنوعی طریقے سے روپے کی قدر برقرار اور ڈالر کی کم رکھی جاتی تھی مگر اسٹیٹ بینک اب اپنے طور پر فیصلے کررہا ہے اور مصنوعی طریقے سے اسٹیٹ بینک ڈالر کو کنٹرول نہیں کرے گا۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے زراعت اور صنعت کو مستحکم کرنا ہے، ابھی بہت کام کرنےکی ضرورت ہے لیکن صحیح سمت نظر آنا شروع ہوگئی ہے، عوام کے لیے مشکلات ہیں لیکن ہماری پالیسیوں کی وجہ سے جلد بہتری آئے گی۔
اسد عمر نے مزید کہا کہ پاکستان کے ٹیکس پیئرکے پیسے سے غیر ملکی تاجر کو سبسڈی دی گئی، قرضے روپے کی قدر برقرار رکھنے کے لیے استعمال کیے گئے، پچھلے چار سال میں ایکسپورٹ انڈسٹریز بند ہوئی ہیں، ہم نے اپنا روزگار ایکسپورٹ کردیا، اس کا نقصان ہماری انڈسٹری کو ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی کا منفی اثر ہوتا ہے لیکن روپے کی قدر میں کمی کا آئی ایم ایف پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہم آئی ایم ایف پروگرام میں جانا نہیں چاہتے، ہماری ایکسپورٹ میں اضافہ ہواہے، سرمایہ کاری بھی بڑھ رہی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری پر بھی مثبت پیش رفت ہورہی ہے اور مختلف ممالک سے بڑی بڑی سرمایہ کاری بھی جلد نظر آئے گی۔