خبرنامہ

کاروباری برادری کی سب سے بڑی تنظیم فوٹو سیشن تک محدود

کراچی:(ملت+اے پی پی) ایف پی سی سی آئی میں من پسند افراد کو شعبہ جاتی کمیٹیوں کی سالانہ بندربانٹ ایک بار پھر شروع کردی گئی ہے۔ سال 2016کے دوران تاجروں کے وفاق ایف پی سی سی آئی میں قائم کی جانے والی شعبہ جاتی کمیٹیاں متعلقہ شعبوں کے مسائل حل کرنے میں بری طرح ناکام رہیں، سال 2016کے دوران ایف پی سی سی آئی میں 159شعبہ جاتی کمیٹیاں قائم کی گئیں جن میں سے 80فیصد کمیٹیوں کا سال بھر میں کوئی ایک نتیجہ خیز اجلاس بھی منعقد نہیں ہوا، بہت سے شعبوں میں بیک وقت متعدد کمیٹیاں قائم کی گئی ہیں جو صلاحیت اور مہارت کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف من پسند افراد کو فوٹو سیشن کا موقع فراہم کرنے کے لیے بنائی گئی ہیں۔ ایف پی سی سی آئی کے انتخابات میں معرکہ سر کرنے والے برسراقتدار یونائیٹڈ بزنس گروپ کے نومنتخب صدر زبیر طفیل کے لیے غیرضروری کمیٹیوں کا خاتمہ اور ناگزیر کمیٹیوں کی کارکردگی کو بہتر بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے سنجیدہ اراکین نے منتخب صدر زبیر طفیل سے مطالبہ کیا ہے کہ نئی کمیٹیوں کی تشکیل سے قبل گزشتہ سال کی شعبہ جاتی کمیٹیوں کی کارکردگی منظر عام پر لائی جائے اور فوٹو سیشن کے لیے کمیٹیوں کا حصہ بننے والے افراد کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے ان کی جگہ باصلاحیت اور اہل افراد کو ذمے داریاں سونپی جائیں۔ تاجر برادری کی خدمات کے نام پر بنے ہوئے بھان متی کے کنبے کا یکسر خاتمہ کیا جائے، ان کمیٹیوں میں 146شعبہ جاتی کمیٹیاں اور 16 سی ایس آر کمیٹیاں شامل ہیں، تحقیق، صنعت، تجارت کے ناموں سے الگ الگ کمیٹیاں بنائی گئیں تاہم پورے سال میں ایف پی سی سی آئی کے پلیٹ فارم سے کوئی جامع تحقیق منظر عام پر نہیں آسکی۔اس کے برعکس، اوورسیز انویسٹرز چیمبر آف کامرس، امریکن بزنس کونسل، پاکستان بزنس کونسل جیسے پلیٹ فارمز صنعت، تجارت اور معیشت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے لیے تحقیق پر مبنی سنجیدہ تجاویز اور سفارشات پیش کرتے رہے جنہیں فیصلہ سازی کے لیے ایف پی سی سی آئی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ ایف پی سی سی آئی کے ذرائع کے مطابق خوش آمد پسند طبقے نے سال 2017کے لیے اپنی من پسند کمیٹیوں میں شمولیت کے لیے بھاگ دوڑ شروع کردی ہے، زبیر طفیل نے کمیٹیوں کی بھرمار کی روایت ختم نہ کی تو اس سال کمیٹیوں کی تعداد 200 تک پہنچ سکتی ہے۔ ایف پی سی سی آئی میں قائم کی جانے والی بہت سی کمیٹیوں کا صنعت و تجارت کے شعبوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے،گزشتہ سال آٹو سیکٹر کی نمائندگی کے لیے بیک وقت 5 مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں،ٹیکسٹائل کی نمائندگی کے لیے بیک وقت 6کمیٹیاں کام کرتی ہیں۔ توانائی کی 1 کے بجائے، انرجی، پٹرولیم پروڈکٹس، سی این جی، ایل پی جی، متبادل توانائی، آئل ٹریڈ اینڈ ٹرانسپورٹ، سولر انرجی، سوئی گیس اینڈ الائیڈ ایشوز، واپڈا افیئرز جیسی 9مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، خواتین تاجروں کے مسائل کے حل کیلیے بیک وقت 6 کمیٹیاں تشکیل دی گئیں، نوجوانوں کے امور سے متعلق مسائل پربھی 3کمیٹیاں بنا دی گئیں۔ ایف بی آر سے متعلق مسائل نمٹانے کیلیے ایف بی آر کمیٹی کے ساتھ براہ راست ٹیکسوں، کسٹم افیئرز ، کسٹم انٹیلی جنس اینڈ انویسٹی گیشن، اینٹی اسمگلنگ، سیلز ٹیکس اینڈ ان لینڈ ریونیو، ویلیو ایشن کے ناموں سے 6 کمیٹیاں بنائی گئیں، ملک میں تیزی سے فروغ پاتی ریئل اسٹیٹ اور تعمیراتی صنعت کیلیے بھی بیک وقت کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن میں ہاؤسنگ اینڈ کنسٹرکشن انڈسٹری کمیٹی، انفرااسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمیٹی، ریئل اسٹیٹ ڈیولپمنٹ کمیٹی، ریئل اسٹیٹ ریسرچ اینڈ امیج بلڈنگ کمیٹی شامل ہیں۔ اسی طرح ماربل اینڈ مائننگ، آئی ٹی، صنعتوں کے تحفظ، ایگری کلچر، فروٹ اینڈ ویجیٹبل، ہارٹی کلچر ، جیم اینڈ جیولری، اسمال انڈسٹریز کیلیے بھی ایک سے زائد کمیٹیاں بنائی گئیں، کچھ کمیٹیوں کے بارے میں ایف پی سی سی آئی کی قیادت کو بھی معلوم نہیں کہ ان کی تشکیل کا کیا جواز ہے، ان میں اقوام متحدہ سے متعلق امور کی کمیٹی، انسداد دہشت گردی اور اسپیشل سیکیورٹی کمیٹی اوربیمار صنعتوں سے متعلق کمیٹیاں شامل ہیں، جن افراد کو شعبہ جاتی کمیٹیوں میں چانس نہ مل سکا ان کے ذوق کی تسکین کیلیے سی ایس آر کمیٹیاں تشکیل دی گئیں جن میں تعلیم، صحت، ماحولیات، انسانی حقوق، اختراعات و ایجادات، غربت میں کمی، پیشہ ورانہ صلاحیتوں میں اضافے سے متعلق کمیٹی، سماجی خدمات، مذہبی امور، سوشل ویلفیئراینڈ اسپیشل پرسنز، سوشل سیکیورٹی ای او بی آئی ورکرز فنڈ، اسپشل پرسنز، کھیل اور تکنیکی تربیت جیسی کمیٹیاں شامل ہیں۔