خبرنامہ

کیش ڈالر کی درآمد کو 35 فیصد تک محدود کرنے کا فیصلہ

کیش ڈالر کی درآمد کو 35 فیصد تک محدود کرنے کا فیصلہ

پشاور/ کراچی:(ملت آن لائن) اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قلت کے حوالے سے پیدا ہونے والے خدشات کے باعث فیصلہ کیا ہے کہ غیرملکی کرنسیوں کی برآمدات کے مقابلے میں کیش ڈالر کی درآمدی ضرورت کو 35 فیصد تک محدود کیا جائے گا۔

مرکزی بینک کی جانب سے گزشتہ روز جاری کیے گئے سرکلر میں کرنسی ایکس چینچ کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وہ غیرملکی کرنسیوں کو دبئی برآمد کرنے کے لیے 100فیصد کے بجائے صرف 35 فیصد کیش ڈالر استعمال کریں۔

سرکلر کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ ایکس چینچ کمپنیاں غیر ملکی کرنسی کے مقابلے میں کیش ڈالر کی درآمد جاری رکھ سکتی ہیں تاہم ایک ماہ میں کیش ڈالر کی درآمد غیر ملکی کرنسی کی مجموعی برآمدات کے35فیصد سے تجاوز نہیں کرے گی جب کہ اسٹیٹ بینک کے سرکلر میں اس حوالے سے نہیں بتایا گیا کہ باقی کے 65 فیصد ڈالر کی درآمدات کیسے ہوگی لیکن ایکس چینچ کمپنیوں کا کہنا ہے کہ بقیہ رقم بینک اکاؤنٹس کے ذریعے منتقل کی جائے گی۔

ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ حیران کن ہے اور اس سے مارکیٹ کے میکنزم کو نقصان پہنچے گا کیونکہ ڈالر کی آمد کو محدود کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسٹیٹ بینک نے پہلے اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی کثیر تعداد میں دستیابی پر غیرملکی کرنسیوں کے برآمدات کے مقابلے میں 100 فیصد کیش ڈالر کی درآمد کی اجازت دی تھی۔

ظفر پراچہ نے کہا کہ نئے فیصلے نے اس عمل کو روک دیا ہے اور ہم دوبارہ ڈالر کے حصول کے لیے بینکوں پر انحصار کریں گے،بینکوں کے ذریعے 65 فیصد ڈالر کی درآمد کا مطلب یہ ہے کہ ایکس چینچ کمپنیوں تک ڈالر پہنچنے میں 3 سے 4 روز لگیں گے جبکہ اس وقت 100 فیصد کیش اسی دن دستیاب ہوسکتا ہے۔

فاریکس ایسوسی ایشن آف پاکستان کے صدر ملک بوستان کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ ایکس چینچ کمپنیوں سے مشاورت کے بعد کیا گیا اور اس سے درآمدی لاگت میں کمی ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ انشورنس اور دیگر اخراجات کے باعث غیرملکی کرنسیوں کی برآمدات کے مقابلے میں ڈالر کی درآمدی قیمت زیادہ ہے۔

ملک بوستان کا کہنا تھا کہ بینکوں کے پاس ڈالر کے کافی ذخائر ہیں اور بینکوں کی جانب سے تاخیر یا اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی کمی کا کوئی امکان نہیں ہے جبکہ باقی 65 فیصد درآمدی ڈالر جلد ہی دستیاب ہوں گے۔ خیال رہے کہ کچھ کرنسی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نئے فیصلے کے بعد ڈالر کی قلت ہوگی اور اوپن مارکیٹ اور بینکنگ مارکیٹ کی قیمتوں کے فرق میں اضافہ ہوگا۔