آئی ٹی دنیا میں اگلی سپر پاور ہے
مجھے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرتے ہوئے بائیس برس ہو چلے ہیں لیکن آج بائیس برس کا نوجوان مجھ سے کہیں زیادہ آئی ٹی میں مہارت رکھتا ہے۔ مجھے چند روز پہلے خرم قریشی کی باتیں سننے کا موقع لا۔ وہ بہت نوجوان نہ بھی ہوں تو میری طرح بوڑھے بھی نہیں اور باقائدہ سافٹ ویئر کی ایک کمپنی چلاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے وہ اس شعبے کے راز ہائے درون خانہ سے بخوبی واقف ہیں۔ پہلے تویہ سن کر افسوس ہوا کہ پاکستان سالانہ صرف ڈیڑھ ارب کا سافٹ ویئر برآمد کرتا ہے جو بعض اندازوں کے مطابق اڑھائی ارب بھی کہا جاتا ہے مگر ہمار ا ہمسایہ بھارت ایک سو پینتیس ارب کی برآمدات کرتا ہے، تو بھائی یہ جو ہم بیٹھ جاتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کاموازنہ کرنے تو مجھے اس پر ہنسی آتی ہے، ہم بیس کروڑ کی قوم ہیں ، بھارت سوا راب کی �آبادی والا ملک ہے۔ لیکن خرم قریشی کی یہ بات سن کر مجھے یک گونہ خوشی ہوئی کہ ہمارا آٗی ٹی کا ماہربھارت کے آئی ٹی ماہر سے کسی لحاظ سے پیچھے نہیں بلکہ نادرا اور پنجاب آئی ٹی بورڈ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے ہیں ، اس کامقابلہ بھارت بھی نہیں کر سکتا، ہمیں ڈاکٹر عمر سیف اور عثمان مبین جیسے ماہرین پر فخر ہے۔ نادرا قومی ڈیٹا کے بہت بڑے ذخیرے کا محافظ اور نگران ہے اور اس کا سافٹ ویئر دنیا کی کئی حکومتیں خریدتی ہیں۔
خرم قریشی کی یہ بات بھی دل کو لگی کہ ہم ائی ٹی کی سہولتوں سے بہرہ یاب ہوتے ہیں، اس کی مدد سے بنائے ہوئے کھلو نوں سے دل لبھاتے ہیں لیکن ہم بتدریج آئی ٹی کے جال میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ اس وقت تو یوں لگتا ہے کہ امریکہ ہی پوری دنیا کو کنٹرول کر رہا ہے مگر ایک وقتآئے گا جب انسانی زندگی پوری طرح آئی ٹی کے چنگل میں چلی جائے گی۔ اس وقت ہم جو بات کر رہے ہیں، جہاں وقت گزارتے ہیں، جو ریسرچ کرتے ہیں، ہماری عادات کیا ہیں، ہماری پسند اور نا پسند کیا ہے، ہم کس معاشی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور ہماری قوت خرید کیا ہے۔ یہ سب کچھ آئی ٹی کے دماغ میں محفوظ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آپ ایک ہوٹل میں چائے پینے جاتے ہیں مگر اگلے ایک ماہ تک اس ہوٹل کا رخ ہی نہیں کرتے تو آپ کا فون یا لیپ ٹاپ آپ کو یاد دلاتاہے کہ آپ کو فلاں ہوٹل میں گئے ایک ماہ ہو گیا ہے۔ کیااس ہوٹل کی سروس پسند نہیں آئی۔ امریکہ کے پچھلے صدارتی الیکشن میں ایک ہنگامہ کھڑا ہو اکہ روس نے امریکی ڈیٹا چوری کر کے ٹرمپ کی راہنمائی کی کہ اسے کہاں کہاں سے ووٹ کس طرح جیتنے ہوں گے۔ ہیلری کلنٹن چیختی ہی رہ گئیں کہ ان کی ای میلز ہیک کر لی گئیں۔ پاکستان میں جھگڑا ٹھ کھڑا ہوا ہے کہ عین الیکشن کی گنتی کے دوران آر ٹی ایس بند ہو گیا۔ پچھلے الیکشن میں بھی یہی بحث سننے کو آئی کہ یورپی یونین نے الیکشن کمیشن کو جو ڈیٹا سنٹر فروخت کیا ہے،اس میں ریموٹ کنٹرول سے ردو بدل کیا گیا اور مخصوص نتائج لئے گئے ۔ نہ تب کوئی تحقیق ہوئی، نہ اب ہونے کی امید ہے۔ اس لئے کہ سیاسی پارٹیوں کو اقتدار پر شب خون مارنے کاا یک آسان طریقہ مل گیا ہے تو وہ اس راستے کو بند کیوں کریں گی۔
امریکہ تو دنیا سے چار قدم آگے ہے ۔ اس نے اپنے ہوم لینڈ سیکورٹی نامی ادارے میں بہت بڑا ڈیٹا سنٹر قائم کر رکھا ہے جو ہم سب کی گفتگو بھی سنتا ہے۔ ہماری ای میلز بھی پڑھتا ہے اور ہماری ایک ایک نقل و حرکت پر نظر رکھتا ہے۔ یہ ڈیٹا سنٹر تب تک کسی سے چھیڑ چھاڑ نہیں کرتا جب تک بندہ ایک خاص حد کو پار نہیں کرتا۔۔ یہ حد بھی امریکی حکومت نے ہی متعین کر رکھی ہے لیکن جونہی آپ نے کسی امریکی قانون کی خلاف ورزی کی ا ور کہیں دہشت گردی کرنے کی تیاری کی تو وہ آپ کو اچک لے گا۔ آسمانی فرشتوں کی طرح کوئی فورس آپ کو کوئی فورس شکنجے میں کس لے گی۔
خرم قریشی کہتے ہیں کہ یہ تو ہوئی امریکی حکومت کی کارستانی مگر اب گوگل بھی خاموشی سے اسی کام میں مصروف ہے۔اس کے پاس بھی آپ کی زندگی کا ڈیٹا محفوظ ہو رہا ہے اور وہ دن دورنہیں جب گوگل کی مرضی کے بغیر آپ کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اسی کی مرضی سے آپ شاپنگ کریں گے ۔ یہی آپ کو اپنی پسند کے ریستوران تک لے جائے گا، آپ کے گھر کا کچن بھی گوگل کنٹرول کرتا دکھائی دے گا۔ خرم قریشی نے سمجھایا کہ انسانی تاریخ میں ایک تو صنعتی انقلاب آیا تھا ، اب نیا انقلاب آئی ٹی کی مدد سے برپا ہو گا۔ شاعر نے کہا تھا کہ ہے دل کے لئے موت مشینوں کی حکومت مگر جب آئی ٹی کی حکومت چلے گی تو شاعر بھی قافیہ ردیف کے چناؤ کے لئے گوگل کا محتاج ہو جائے گا۔
دنیا میں سرحدوں کی حفاظت کے لئے مسلح افواج ہیں، میزائل ہیں،ٹینک ہیں ، جاسوسی ادارے ہیں۔کسٹمز کا جبر نافذ ہے مگر آئی ٹی کی دنیا کسی سرحد کو تسلیم نہیں کرتی۔ آپ انٹرنیٹ سے ہزاروں کتابیں ڈاؤن لوڈ کر لیں ، کہیں کوئی کسٹم والا آپ کو روکنے ٹوکنے ولا موجود نہیں ہوتا۔ ایک دنیا یہ ہے کہ آپ واہگہ کی سرحد پر کھڑے ہو کر دوسری طرف کے شخص سے بات کریں تو آپ کو ہتھ کڑیاں لگ جائیں مگر ایک دنیا آئی ٹی کی ہے کہ ایک سمارٹ فون پر سرحد پار گھنٹوں باتیں کریں۔
سمارٹ فون کا ذکر چلا تو خرم قریشی نے بتایا کہ آپ کا سمارٹ فون ا سوقت بھی کام کرتا ہے، ا سکے کان سنتے ہیں، اس کی آنکھیں دیکھتی ہیں اورا س کا ٹیپ ریکارڈر آن رہتا ہے جب آپ ا سے آف کر دیتے ہیں۔ یہ اسمارٹ فون مکمل جاسوسی کے آلات سے لیس ہے اور کوئی بھی شخص آپ کے بند کمرے میں سمارٹ فون کی مدد سے تاک جھانک کر سکتا ہے ،۔ گویا آپ کی نجی زندگی بھی محفوظ نہیں رہی۔ دنیا پرائیویسی کی حفاظت کے لئے نت نئے قوانین بناتی ہے مگر اسمارٹ فون تمام قوانین کو تہہ و بالا کر کے رکھ دیتا ہے۔دوسری طرف فضا میں سینکڑوں سٹیلائٹ ہیں جو آپ کی مانیٹرنگ کر رہے ہیں۔ آپ ایک جال مین پھنستے چلے جا رہے ہیں۔ مجھے یہ سن کر اپنے دوست اوریا مقبول جان کی یہ بات یادآئی کہ ہیلری کلنٹن لاہور کے دورے پرآئیں تو وہ ان کے پروٹوکول افسر تھے۔ بادشاہی مسجد دیکھنے گئے تو ہیلری کلنٹن نے مسجد سے باہر کھلی جگہ پر ٹہلنا شروع کیا۔ جس پر اوریا مقبول جان کو تشویش لاحق ہوئی کہ مینار پاکستان کی طرف سے کھلے علاقے میں کوئی دہشت گرد تاک کر ان کے مہمان کو تشانہ ہی نہ بنا ڈالے ،۔ انہو ں نے گھبرا کر امریکی سیکووٹی افسر سے کہا کہ ہیلری ایک خطرہ مول لے رہی ہیں۔ انہیں واپس آنے کو کہیں۔ یہ سن کر امریکی سیکورٹی اہل کار ہنس دیا ۔ا سنے کہا کہ ہیلری کی حفاظت نہ میں کر رہا ہوں، نہ آپ ا س کی فکر کریں۔، فضائی سیارے اس کی دیکھ بھال پر مامور ہیں اورا س سے پہلے کہ کوئی ماہر نشانہ باز ہیلری کی طرف گن تانے ، ایک میزائل اس کا قیمہ بنا ڈالے گا۔
کیا نئی ٹیکنالوجی ہماری زندگی آسان بنا رہی ہے یا ہم مشکلات میں پھنس رہے ہیں، یہ ہے وہ سوال جو خرم قریشی کی باتیں سن کر میرے دل و دماغ میں گردش کر رہا ہے۔
ایک اور سول جس نے مجھے شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے وہ ہے آئی ٹی کے شعبے میں پاکستان کی پس ماندگی۔ میں نے خرم قریشی سے دریافت کیا کہ کیا ا س کا کوئی حل تجویز کریں گے، انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک اور ڈاکٹر محبو ب الحق چاہئے ۔ انہوں نے اپنے دور میں نوجوانوں کو کھلی پیش کش کی تھی کہ وہ دنیا میں جہان کہیں آئی ٹی کی اعلی تعلیم کے لئے جانا چاہیں ، حکومت ان کے اخراجات برداشت کرے گی،انہیں اپنی اسکیم پر کام کرنے کے لئے زیادہ وقت نہ ملا مگر انہوں نے پاکستان میں آئی ٹی کی ترقی کی بنیاد رکھ دی،آج پھر کوئی محبوب الحق کی سوچ کا حامل شخص ہمارے وطن عزیز کو آئی ٹی کے افلاس سے نجات دلا سکتا ہے۔