لاہور (ملت آن لائن) سیاسی حلقوں اور سوشل میڈیا پر ان خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ آخری معرکے کے لئے صف آرائی ہو چکی ہے، حکومتی وزرا کا جے آئی ٹی ا ور عدلیہ کے خلاف محاذ شدت اختیار کر گیا ہے ، کہا جا رہا ہے کہ قطری خط کو مد نظر رکھے بغیر فیصلہ ہوا تو قبول نہ کرنے کا عندیہ بھی دیا جائے گا ، دوسری طرف عدالت توہین برداشت نہیں کرے گی، اس ساری کشمکش سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ سیاسی عدم استحکام سنگین صورت اختیار کر چکا ہے.
اس بحران میںپاکستان کی پوزیشن انتہائی نازک ہے. دیکھنا یہ ہے کہ یہ قطر کے ساتھ کھڑا ہو گا یا سعودی عرب کے ساتھ. قطر اور سعودی عرب کے درمیان اس وقت تنائو عروج پر ہے جبکہ پاکستان کے ان دونوںکے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں. اگر پاکستان نے قطر کے ساتھ جانے کا فیصلہ نہ کیا تو قطری شہزادہ بھی سپریم کورٹمیںپیش ہونے کو تیار نہیںہو گا. اس وقت اس کیس کا سارا انحصار قطری خط پر ہے کیونکہ حکمران خاندان کی طرف سے یہ اہم ترین ثبوت ہے. اگر قطری شہزادہ اپنا خط واپس لے لے تو حکمران خاندان کے لئے مسائل کھڑے ہو سکتے ہیں. قطری شہزادے کو منانے کے لئے حسین نواز بھی گزشتہ دنوں قطر گئے تھے لیکن اخباری اطلاعات کے مطابق ملاقات نہ ہونے پر وہاںسے لندن چلے گئے. قطری شہزادے نے دو مرتبہ جواب لکھا جو حسین اور حسین نواز نے سپریم کورٹ میں جمع کرایا تھا. اپوزیشن کی جانب سے قطری شہزادے کے حوالے سے شدید تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ قطری شہزادے کو پاکستان میں آ کر سپریم کورٹکے سامنے تفصیلات دینی چاہئیں. عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ اس طرحکے خط کی کوئی اہمیت نہیں. جب تک قطری شہزادہ خود آ کر عدالت میںپیش نہیںہوتا اور اس سے متعلقہ ثبوت اور دستاویزات پیش نہیں کرتا تب تک اس خط کی کوئی اہمیت نہیں ہو گی اور یہ محض کاغذ کا ٹکڑا تصور کا جائے گا.
………………………………………………………………….
قطری شہزادے کو تفتیش کا حصہ نہ بنایا گیا تو جے آئی ٹی کی رپورٹ قبول نہیں’
حکومت کا بڑا اعلان، جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی مسترد، قطری شہزادے کی گواہی کے بغیر جے آئی ٹی کی رپورٹ یک طرفہ ہو گی، نون لیگ نے جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے نمائندوں کی شمولیت پر اعتراض داغ دیا، لیگی وزراء کہتے ہیں مافیا اور گاڈ فادر کے دور میں عدالتیں نہیں لگتیں، جے آئی ٹی کی سربراہی ایف آئی اے کو کرنا تھی، اب تو اخبار میں خبر آ گئی ہے کہ جے آئی ٹی کا کنٹرول حساس ادارے کے پاس ہے لیکن تین دن سے اس کی تردید نہیں آئی، ہمیں موجودہ صورتحال میں انصاف ہوتا نطر نہیں آ رہا۔
اسلام آباد: (ملت آن لائن) شہرِ اقتدار میں وفاقی وزراء نے جے آئی ٹی پر اپنے تحفظات سے متعلق پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پانامہ تحقیقاتی ٹیم کو آڑے ہاتھوں لیا اور شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ وزیر اعظم استثنیٰ لے سکتے تھے لیکن انہوں نے نہیں لیا، وزیر اعظم نے خود کو احتساب کے لئے پیش کیا، وزیر اعظم نے جے آئی ٹی سے مکمل تعاون کیا، تمام شواہد عدالت میں پیش کئے جا چکے ہیں، جے آئی ٹی کے بننے کے بعد شکوک و شہبات پیدا ہوئے ہیں اور جے آئی ٹی پر بہت سے سوال اٹھے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی نے مزید کہا کہ جو شک پیدا ہوا اسے عوام کے سامنے رکھنا ضروری ہے، وزیر اعظم کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت نہیں ہے تاہم، جے آئی ٹی کی تشکیل اور اس کے اراکین روز اول سے متنازع رہے۔ وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ معزز ججز کے ریمارکس کو مخالفین ہمارے خلاف استعمال کرتے ہیں، عدالتوں نے مخالفین کے رویوں کا نوٹس نہیں لیا، ن لیگ سب سے بڑی جماعت ہے اور اس نے سب سے زیادہ ووٹ لئے۔ سعد رفیق نے مزید کہا کہ جے آئی ٹی میں حساس اداروں کے ارکان کی شمولیت پر تحفظات تھے، عامر عزیز مشرف دور میں شریف خاندان کے پیچھے لگائے گئے، عامر عزیز کا نام سامنے آیا تو مسائل کھڑے ہوئے، بلال رسول میاں اظہر کے قریبی رشتہ دار ہیں۔ انہوں نے استفسار کیا کہ ہماری پیاری جے آئی ٹی کو فون ٹیپ کرنے کی اجازت کس نے دی؟ اگر ریاستی اداروں کا احترام لازم ہے تو منتخب حکومت کا بھی احترام کیا جائے۔ سعد رفیق کا مزید کہنا تھا کہ اس صورتحال میں ہمیں انصاف ہوتا نظر نہیں آ رہا، ہمیں کہا گیا تھا کہ جے آئی ٹی کو ایف آئی اے ہیڈ کرے گی لیکن اب ایک اخبار کی رپورٹ کے مطابق، جے آئی ٹی کو ہیڈ کوئی اور کر رہا ہے، یہ کوئی نہیں بتاتا کہ چوری اور کرپشن کہاں ہوئی ہے؟ پٹیشن کچھ اور تھی، کیس کہیں اور جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی کمیشن چودھری احسن اقبال نے کہا کہ 2013ء میں قوم نے نواز شریف کو بھرپور مینڈیٹ دیا تو وزارت عظمیٰ کا خواب چکنا چور ہونے پر ایک شخص نے سازشیں شروع کر دیں، سب سے پہلی سازش دھرنے کی صورت میں سامنے آئی، دھرنا ٹو کی صورت میں پھر سازش کی گئی۔ انہوں نے نام لئے بغیر تحریک انصاف کے سربراہ پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ کشمیر، گلگت بلتستان میں الیکشن ہارے، وہ ضمنی الیکشن اور بلدیاتی انتخابات بھی ہارے جس کے بعد انہوں نے سپریم کورٹ کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ وزیر اعظم کی طلبی سے سٹاک مارکیٹ بیٹھ گئی، پاکستان کی ترقی کو سیاسی بے یقینی میں تبدیل کرنا مجرمانہ حرکت ہے، سیاسی پٹیشن کو ذاتی مقاصد کیلئے استعمال کیا گیا۔ احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ چور دروازوں سے اقتدار میں آنے کا وقت گزر چکا، اب اقتدار ووٹ کی طاقت سے ملے گا، اگر اب کسی نے سازش کی تو وہ منہ کی کھائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اربوں کے منصوبے ملک میں لائے، ایک روپے کی کرپشن دکھا دیں، مخالفین چور دروازے سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں، 10 ہزار میگا واٹ بجلی مئی 2018ء میں سسٹم میں شامل ہو جائیگی۔ احسن اقبال نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ہمارے خلاف ایک روپے، ایک ڈالر کی کرپشن ثابت کر دیں، بجلی کے متعدد منصوبوں میں بچت کی گئیں، 4 سالہ دور حکومت میں کرپشن کا کوئی سکینڈل نہیں۔ احسن اقبال نے مزید کہا کہ کرپشن سے خزانے خالی ہوتے ہیں، بھرتے نہیں، ہمارے تین ادوار حکومت میں کوئی کرپشن کیس نہیں بنا۔ احسن اقبال نے یہ بھی کہا کہ جے آئی ٹی کے سوالات کا پٹیشن سے کوئی تعلق نہیں، جے آئی ٹی کے غیرضروری سوالات کا بھی جواب دیا، مافیا اور گاڈ فادر کے دور میں عدالتیں نہیں لگتیں، قطری شہزادے کو تفتیش کا حصہ نہ بنایا گیا تو جے آئی ٹی کی رپورٹ قبول نہیں۔ خواجہ آصف بولے، قطری شہزادے کو تفتیش کا حصہ نہ بنایا گیا تو جے آئی ٹی کی رپورٹ قبول نہیں کریں گے، گاڈ فادر یا سسلین مافیا عدلیہ کی آزادی کی جنگ نہیں لڑتے، ایڈیٹنگ کے بغیر جے آئی ٹی کی کارروائی کی آڈیو ویڈیو عوام کو دکھائی جائے۔ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ عوام کو پتہ چلنا چاہئے کہ شریف خاندان سے کیا سوال کئے گئے۔ انہوں نے عمران خان سے سوال کیا کہ انہیں طلاق شدہ بیوی پیسے بھیجتی ہے، یہ معجزے کیسے ہوتے ہیں؟ عمران خان سے بھی پوچھا جائے، اس پر بھی جے آئی ٹی بنائی جائے، عمران خان نے زکوٰة کے پیسے کاروبار میں کیسے لگائے؟ عدالت عظمیٰ کی عظمت کیلئے نواز شریف گھر سے نکلا تھا، جب نواز شریف لاہور سے نکلے تو ان کے گوجرانوالہ پہنچنے سے پہلے عدلیہ بحال ہو گئی۔ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ اس وقت بھی نواز شریف سرخرو ہوئے، آج بھی سرخرو ہوں گے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پلوں کے نیچے سے بہت پانی بہہ چکا ہے، اب 93ء اور 99ء جیسی صورتحال نہیں، اپنے حق کا بھرپور دفاع کریں گے، دنیا کوشش کر رہی ہے کہ ایٹمی قوت کو معاشی قوت نہ بننے دیا جائے، اسے روکنے پر دھرنے والوں کو سازشی کہتے ہیں، تحفظات اور اعتراض کرنا ہمارا حق ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں خواجہ آصف بولے، فوج اور حساس اداروں کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، فوج اور حساس اداروں کا ایک آئینی رول ہے، فوج ملک کی حفاظت کیلئے قربانیاں دے رہی ہے۔ احسن اقبال نے شاہین صہبائی کے ٹویٹ پر جواب دیا، رو نہیں رہے، دھاڑ رہے ہیں۔ CRYING LIKE KIDS: 4 top guns come out like beaten, crippled kids who lost but want 2 get attn by crying out loud. All based on planted news. — SHAHEEN SEHBAI (@SSEHBAI1) July 8, 2017 SURRENDER EVENT: Todays Presser looks like a surrender ceremony to announce a war on Courts/JIT. Tks AhsanIqbal 4 proving I got a direct hit — SHAHEEN SEHBAI (@SSEHBAI1) July 8, 2017 Great Ahsan Sb, It looks like all 4 are PM candidates, I will prefer you without doubt. Sorry that party defending corruption of a family https://t.co/JM0uCp73MR — SHAHEEN SEHBAI (@SSEHBAI1) July 8, 2017