خبرنامہ

آرمی چیف انتشار کے مقابل کھڑے ہوں گے

آج پاکستان کے لوگ دن کی روشنی میں کیا یہ خواب دیکھنے لگ گئے ہیں کہ جیسے بنگلہ دیش میں عوام نے حکومت کا دھڑن تختہ کردیا، اسی طرح ہمارے ہاں بھی عوام کی طاقت سے انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ میں اس موضوع پر آگے چل کر تفصیل سے بات کروں گا، مگر پہلے آپ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا درج ذیل بیان پڑھ لیں جس میں انھوں نے کہا ہے کہ رب کریم کی قسم انتشار پیدا کرنے والوں کے آگے کھڑے ہوں گے۔ وفاقی دارالحکومت میں نیشنل علما کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑا جرم فساد فی الارض ہے۔ پاک فوج اللہ کے حکم کے مطابق فساد فی الارض کے خاتمے کے لیے جدوجہد کر رہی ہے۔ جو شریعت اور آئین کو نہیں مانتے، ہم انھیں پاکستانی نہیں مانتے۔ آرمی چیف نے کہا کہ پاکستان نے 40 سال سے زیادہ عرصے تک لاکھوں افغانوں کی مہمان نوازی کی ہے۔ ہم انھیں سمجھا رہے ہیں کہ فتنہ خوارج کی خاطر اپنے ہمسایہ، برادر اسلامی ملک اور دیرینہ دوست سے مخالفت نہ کریں۔ دہشت گردی کی جنگ میں ہمارے پختون بھائیوں اور خیبر پختونخوا کے عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں اور ہم ان کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خوارج ایک بہت بڑا فتنہ ہیں،جن کے بارے میں شاعر کہتا ہے:
اللہ سے کرے دور تو تعلیم بھی فتنہ
املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
آرمی چیف نے کہا کہ ہم لوگوں کو کہتے ہیں کہ اگر احتجاج کرنا ہے تو ضرور کریں لیکن پر امن رہیں۔ شدت پسندی پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ دین میں جبر نہیں ہے۔ جرائم اور سمگلرز مافیا دہشت گردی کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے انتشار پھیلایا جاتاہے۔ ناموسِ رسالت پر بات کرتے ہوئے آرمی چیف نے کہا کہ کسی کی ہمت نہیں جو رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر سکے۔ جنرل سید عاصم منیر کا کہنا تھا کہ کسی نے پاکستان میں انتشار کی کوشش کی تو رب کریم کی قسم، ہم اس کے آگے کھڑے ہوں گے۔ دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو نقصان نہیں پہنچا سکتی کیوں کہ یہ ملک قائم رہنے کے لیے بنا ہے۔ اس پاکستان پر لاکھوں عاصم منیر، لاکھوں سیاستدان اور لاکھوں علما قربان کیونکہ پاکستان ہم سے زیادہ اہم ہے۔ انھوں نے کہا کہ اگر ریاست کی اہمیت جاننی ہے تو عراق، شام اور لیبیا سے پوچھو۔ علما و مشائخ سے التماس ہے کہ وہ شدت پسندی یا تفریق کے بجائے تحمل اور اتحاد کی ترغیب دیں۔ علما کو چاہیے کہ وہ اعتدال پسندی کو معاشرے میں واپس لائیں اور فساد فی الارض کی نفی کریں۔ مغربی تہذیب اور رہن سہن ہمارا آئیڈیل نہیں ہے۔ ہمیں اپنی تہذیب پر فخر ہونا چاہیے۔آرمی چیف نے علامہ اقبال کا شعر پڑھا:
اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار
قوتِ مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری
آرمی چیف کا مزید کہنا تھا کہ جو یہ کہتے تھے کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے، وہ آج کہاں ہیں؟ کشمیر تقسیم پاک و ہند کا ایک نامکمل ایجنڈا ہے۔ فلسطین اور غزہ پر ڈھائے جانے والے مظالم دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ فلسطین سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہم نے اپنی حفاظت خود کرنی ہے اور پاکستان کو مضبوط بنانا ہے۔ آرمی چیف نے انتشار کی کئی اقسام کا ذکر کیا ہے، انھوں نے ایک بنیادی با ت یہ کی ہے کہ اسلام ایک ایسا دین ہے جس میں جبر کا کوئی عمل دخل نہیں۔ پھر انھوں نے حرمت رسول کا بھی ذکر کیا ہے اور اس سلسلے میں بہت سخت تنبیہ کی ہے۔ تیسرے، انھوں نے دہشت گردوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے بیس برسوں میں پاک فوج نے ان کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہونے دیے، اور آئندہ بھی ان کے سازشی منصوبے ناکام بنادیے جائیں گے۔ آرمی چیف نے علما و مشائخ سے اپیل کی کہ وہ ملک میں مذہبی ہم آہنگی اور اتحاد ملت کو فروغ دیں۔ آرمی چیف نے انتہائی جذباتی انداز میں کہا کہ ریاست ِ پاکستان سے بڑھ کر کسی فرد کی اہمیت نہیں، اس پر لاکھوں سیاستدان، علما اور جنرل عاصم منیر قربان کیے جاسکتے ہیں۔ جہاں تک بنگلہ دیش میں تبدیلی کی بات ہے تو آرمی چیف نے اس کا حوالہ دیے بغیر خبردار کیا ہے کہ جس کسی نے احتجاج کیا ہے، وہ پر امن طور پر کرے کیونکہ اگر کسی نے پر تشدد احتجاج کرنے کی کوشش کی تو پھر پاک فوج اسکے مدمقابل کھڑی ہوگی۔ آرمی چیف کی پوری تقریر پڑھتے ہوئے یہ صاف محسوس کیا جاسکتا ہے کہ وہ علامہ اقبال کی شاعری اور انکے انقلابی نظریات سے کس حد تک متاثر ہیں۔
جہاں تک پاکستان کی تخلیق کا تعلق ہے تو اسکے پیچھے سراسر قائد اعظم اور انکے ساتھیوں کی سیاسی جدوجہد ہی کارفرما تھی۔ 1977ءمیں اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پی این اے کے پلیٹ فارم سے اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف ایک زبردست تحریک چلائی گئی جس نے اتنی شدت پکڑی کہ لاہور میں چند مظاہرین گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کردیے گئے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اتنی قربانیوں کے باوجود یہ تحریک مطلوبہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ بعد میں معزول وزیراعظم بھٹو کو پھانسی پر چڑھایا گیا تو پیپلز پارٹی نے اپنے تئیں شدید احتجاج کیا مگر ریاست نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔ آگے چل کر ایم آر ڈی کی تحریک نے زور پکڑا مگر اسے طاقت سے کچل دیا گیا۔ اب تک ملکی تاریخ میں عوام کی کوئی سیاسی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے تو وہ چیف جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کیلئے تھی۔ عمران خان نے انتخابی دھاندلیوں کے نعرے کی آڑ میں مہینوں تک دھرنا دیا، پی ٹی وی پر قبضہ بھی کیا گیا، پارلیمنٹ ہاﺅس کو بھی روند ڈالا گیا مگر اس سارے دھرنے کی وجہ سے ریحام خان کےساتھ شادی کے علاوہ اور کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ ویسے بھی یہ دھرنا زیادہ تر ناچ گانے اور مستی دکھانے تک محدود رہا۔
گذشتہ برس 9 مئی کو عمران خان کی پارٹی نے 200 فوجی تنصیبات کو نشانہ بنایا، عمران خان اور اس کے انصافی یوتھیوں نے فوج میں ایک بڑی بغاوت کی افواہیں بھی چھوڑیں، تب سے لے کر اب تک تحریک انصاف نے فوج اور خاص طور پر سابق اور موجودہ آرمی چیف کے خلاف سوشل میڈیا پر انتہائی مذموم پروپیگنڈا شروع کررکھا ہے۔ ان سب سازشی منصوبوں کو ناکام بنانے کیلئے ضرور فوج کو اپنا آئینی فرض ادا کرنا چاہیے۔