آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح: سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا
اسلام آباد:(ملت آن لائن) سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں پر سماعت کے دوران فریقین کے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عظمت سعید شیخ، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بنچ نے مذکورہ کیس کی سماعت کی۔ مذکورہ کیس کہ 12 فروری کو ہونے والی سماعت کے دوران سپریم کورٹ نے غیر حاضری پر اٹارنی جنرل کو 20 ہزار روپے جرمانہ کیا تھا۔ آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح: سپریم کورٹ نے غیر حاضری پر اٹارنی جنرل کو جرمانہ کردیا آج سماعت کے دوران اٹارنی جنرل اشتر اوصاف عدالت عظمیٰ میں پیش ہوئے اور اپنے دلائل دیئے۔ اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کرلیا، جو بعد میں سنایا جائے گا۔
آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پاناما کیس سے متعلق 28 جولائی 2017 کے فیصلے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا، جس کے بعد وہ وزارت عظمیٰ کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے تھے۔ دوسری جانب گذشتہ برس 15 دسمبر کو عدالت عظمیٰ نے تحریک انصاف کے رہنما جہانگیر ترین کو بھی نااہل قرار دیا تھا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف اور تحریک انصاف کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو آئین کی اسی شق یعنی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل کیا گیا تھا۔ جس کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا کہ آیا سپریم کورٹ کی جانب سے ان افراد کو تاحیات نااہل قرار دیا گیا یا یہ نااہلی کسی مخصوص مدت کے لیے ہے۔
آرٹیکل 62 ون ایف کی تشریح: نواز شریف کا عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ
اس شق کی تشریح کے حوالے سے سپریم کورٹ میں 13 مختلف درخواستوں پر سماعت جاری ہے۔ سپریم کورٹ میں یہ درخواستیں دائر کرنے والوں میں وہ اراکینِ اسمبلی بھی شامل ہیں، جنہیں جعلی تعلیمی ڈگریوں کی بنیاد پر نااہل کیا گیا۔ ان درخواستوں میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت تاحیات نااہلی کا قانون ختم کرکے اس کی مدت کا تعین کیا جائے تاہم واضح رہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف نے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے عدالتی کارروائی میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 6 فروری کو عدالت عظمیٰ میں جمع کروائے گئے اپنے جواب میں نواز شریف نے موقف اختیار کیا تھا کہ کئی متاثرہ فریق عدالت کے روبرو ہیں، وہ ان کے مقدمے کو متاثر نہیں کرنا چاہتے۔