آصف جاہ کے سفر نامہ کی تقریب رونمائی…اسد اللہ غالب
منشا قاضی نے کیاخوب کہا کہ ڈاکٹر آصف جاہ نے سفرنامہ نگاروں کو مات دے دی ہے۔ایک سفر نامہ ابن بطوطہ نے لکھا اور مشہور ہو گیا۔مارکو پولو نے بھی مشہوری پکڑنے کے لئے سفر نامہ لکھا۔ یہ اس دور کے سفر نامے ہیں جب ہر کوئی سفر نہیںکرتا تھا اور کرتا تھا تو قوت مشاہدہ سے محروم تھا یاوہ لکھنے لکھانے کی صلاحیت سے عاری تھا، ابن انشا نے کیا خوب سفر نامہ لکھا کہ چلتے ہو تو چین کو چلئے۔ کرنل محمد خان نے بجنگ آمد لکھی۔ یہ بھی ایک سفر کاا حوال تھا۔ سفر نامے کے لئے ضروری نہیں کہ یہ حقیقت پر مبنی ہو، اس میں گپ شپ نہ ہو تو مزہ نہیں آتا،ایک دور آیا کہ ہمارے شاعر اور ادیب لوگ دوبئی گئے۔ قطر گئے۔ پھر لندن پہنچے اور اوسلو کا سفر بھی مل گیا۔ ایک زمانے میں وسط ایشیا کی ریاستوں کے دروازے کھلے تو ہم نے ریوڑ کی شکل میں ان ریاستوں کا سفر کیا اور سفرناموں کا انبار لگ گیا۔ یہ سفر نامے نہیں ،بازاری ادب کا کوڑا کچرا تھا۔ آصف جاہ کے سفرناموں کا رنگ ڈھنگ اپنا ہے۔ یہ مصائب نامے ہیں۔دکھوں کی کہانیاں ہیں۔ غم اور تڑپ کا بیان ہے اور انسانیت ، فلاح اور اخوت کااحوال ہے۔ کہیں زلزلہ آیا تو آصف جاہ تڑپ کر وہاں جا پہنچے۔ وہ کسٹمزہیلتھ کیئر سوسائٹی چلاتے ہیں ، ان کے ساتھی ان پر اندھا اعتماد کرتے ہیں اور دیکھا دیکھی دیگر فراخدل بھی ان کی مدد کرتے ہیں اور آصف جاہ دوائیوں اور کھانے پینے کی اشیا لے کر مصیبت کے ماروں کے پاس پہنچ جاتے ہیں، ان کا سفر بے حد دشوار ہوتا ہے۔ کسی علاقے میں سیلاب منہ زور ثابت ہو رہا ہو تو وہ طوفانی موجوں سے کھیلنے کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں۔ان کے پیچھے سامان سے بھرے ٹرک ہوتے ہیں۔ سب سے پہلے وہ بیماروں کا علاج کرتے ہیں کہ سیلاب میں بیماری سب سے پہلے حملہ آور ہوتی ہے۔ مچھر کاٹتا ہے۔گندگی کی بو متعدی بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔ دھوپ سے بخار بے قابو ہو جاتا ہے۔ ایسے میں ڈاکٹر آصف جاہ کی مسیحائی کام آتی ہے۔ ذرا پانی پیچھے ہٹتا ہے تو وہ سب سے پہلے ایک مسجد تعمیر کرتے ہیں
روز محشر کہ جاں گدا زبود
اولیں پرسش نما زبود
ان کی تعمیر کردہ مسجدوں کی رونق دیکھنے والی ہوتی ہے۔ یہی مسجدیں ہسپتال کا کام دیتی ہیں یہیں بیٹھ کروہ خوراک تقسیم کرتے ہیں اور مستحقین کی دست گیری کرتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف جاہ تھر کے قحط زدہ ریگستان میں بھی کئی بار گئے، واپسی پر ایک سفر نامہ لکھ لائے۔ اوران کے زلزلہ زدگان کی مدد کے لئے پہنچے تو ایک بار پھر ان کی بغل میں نیا سفر نامہ تھا۔ لوگ فلاحی کاموں سے نیکیاںکماتے ہیں، ڈاکٹرا ٓصف جاہ سفر نامے کماتے ہیں اور نیکیاں بھی۔ ان کے سفرنامے اتنے ہیں کہ ان کی تعداد گننے میں نہیں آتی۔ کسی شخص کو ان کے سفرناموں پر پی ایچ ڈی کر لینی چاہیئے۔فاروق تسنیم ان کے پرانے ساتھی ہیں ، کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کے فلاحی کاموں کی کامیابی میں ان کے محکمے کا تعاون پیش پیش ہے۔ ظاہر ہے ایک بڑا افسر بار بادفتری کام چھوڑ کر ہفتوں کے لئے امدادی کاموں پر نکل جائے تو محکمے کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ میںنے ان کے چند فنکشن دیکھے ہیں جن میں فنڈ اکٹھا کیا جاتا ہے تو ان کے محکمے کا سب سے بڑا فسر وہاں مہمان خصوصی ہوتا ہے اور سب سے پہلے چندے کا اعلان وہی کرتا ہے۔ اور پھر دل والے ڈھیر لگا دیتے ہیں ۔ اعجاز سکا کا شمار ان کے با اعتماد ساتھیوں میں ہوتا ہے۔کبھی ان کے دفتر جانے کاا تفاق ہو تو وہاں رضاکاروں کا ہجوم لگا ہوتا ہے۔ اشیائے خوراک کے ڈھیر لگے ہوتے ہیں ۔بے شمار لوگ ان کے پیکٹ بنانے میںمصروف ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر آصف خود مریضوں کو دیکھتے ہیں، علاج کے ساتھ تسلی بھی دیتے ہیں اور دعا بھی کرتے ہیں۔ان کے ہسپتال میں عشا کی نما زکے بعد ترجمہ قرآن کا دور چلتا ہے۔ سب نیک لوگ جمع ہوتے ہیں۔یہ نیکیوں کے جذبے سے سرشار ہیں۔ڈاکٹر آصف جاہ نے کہا کہ ترکی کے بارے میں بہت سنا تھا۔ تحریک خلافت کا دور ان کے ذہن میں رچا بسا ہوا تھا۔مولانا محمد علی اور مولانا شوکت علی اور بولی اماں محمد علی کی جان بیٹا خلافت پہ دے دو۔ قائد اعظم کی طرف سے تحریک خلافت کی پر زور تائید۔ اس مرحلے پر خالد سلیم بولے کہ خلافت کا سنہری دور ہم سب کے ذہنوں کو ہانٹ کرتا ہے کیا دور تھاسلمان عالی شان کا کہ آدھا یورپ خلافت عثمانیہ کا حصہ تھا۔جرمنی، ہنگری کے علاقے اسلام قبول کرتے جا رہے تھے۔ بس اسی بات پہ مغرب والوںنے سازشوںکا جال بچھایا۔ ترکی اور عرب میں اختلافات پیدا کئے ۔ خلافت پارہ پارہ ہو گئی، ترکی کو عربوں سے کاٹ دیا اور یہاں ترکی زبان کو ترجیح حاصل ہو گئی۔ لوگ اپنے اسلاف کی کتابوں کے مطالعے سے محروم ہو گئے مگر ان کے اندر کے مسلمان کو ختم نہ کیا جا سکا۔ وحید رضابھٹی بلحاظ عہدہ ترکی جاتے رہے ہیں۔ وہاں پاکستانی مصنوعات کی نمائشیںلگتی تھیں مگر بہت پہلے جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں تھے اور آر سی ڈی کے طلبہ کے ایک وفد کے ساتھ ترکی اور ایران گئے۔انہوںنے دیکھا کہ ترکی کے مرد و زن ماڈرن لباس پہنتے تھے ۔ عورتیں اسکرٹ میں ملبوس ہوتیں مگر نما ز کا وقت ہوتا تو ایک عباءاوڑھ لیتیں اور مسجد میں باجماعت نماز ادا کرتیں۔ یہ دستور اب تک ترکی میں قائم ہے۔ترکی میں اسلام کی جڑیں پرانی تاریخ سے جڑی ہوئی ہیں،۔یہ ملک انبیا کی سرزمین ہے۔ ڈاکٹرا ٓصف جاہ نے بتایا کہ وہ اس شہر میں گئے جہاں حضرت ابراہم علیہ السلام کو آگ میں ڈالا گیا۔ اس واقعے کی کئی نشانیاں آج بھی موجود ہیں۔ حضرت ایوب انصاری ؓ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے ۔ لوگ مزار پر حاضری دیتے ہیں اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھاتے ہیں۔ مولانا روم کا مزار بھی دیکھنے کے لا ئق ہے ۔ترکی کی مسجدوں کا فن تعمیر اپنی مثال آپ ہے۔ سرزمین ترکی کا حسن اپنی جگہ دلوں کو مسحور کرتاہے۔ترک لوگ پاکستان سے بے پناہ محنت کرتے ہیں ۔ شاید ا سکی وجہ تحریک خلافت کی یادیں ہیں۔ ڈاکٹرآصف جاہ نے بتایا کہ ایک شخص نے ان کا پیچھا کیا۔ ان کا خیال تھا کہ کوئی انٹیلی جنس والاہو گا۔،آخر یہ رک گئے تو اس نے بڑے ادب اورا حترام سے کہا کہ میںنے آپ کے سینے پر پاکستان کا سبز ہلالی پرچم لگا دیکھاتو خواہش پیداہوئی کہ آپ سے مانگوں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کی محبت کے جواب میں پاکستانی پرچم اس کے سینے پرآویزاں کر دیا ۔ وہ شخص اس قدر ممنونیت کااظہار کرر ہا تھا جیسے اسے لعل یمن ہاتھ لگ گیا ہو۔شام کاجھگڑا کیا ہے۔ یہ ایک فتنہ ہے جس کے ذریعے مسلمان کے ہاتھوںمسلمان کا گلا کاٹا جا رہا ہے۔ تاریخی مقامات منہدم ہو گئے۔ کہیں روس بمباری کر دیتا ہے اور کہیں امریکہ آ ٹپکتا ہے، حلب کے تاریخی شہر کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔شام کے چالیس لاکھ مہاجرین ترکی میں ہیں اور اتنے ہی اپنے ملک کے اندر خیموں میں بے آسرا پڑے ہیں۔ڈاکٹر آصف جاہ نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ دنیا نے ہم مسلمانوں کو تماشہ بنا کے رکھ دیا ہے اور ملکوں ملکوں ہمارے اوپر تباہی نازل کر دی ہے۔ ناجانے ہمیں کب ہوش آئے گی۔اسلم کمال بھی کمال کے انسان ہیں۔ مصور بھی ہیں۔ شاور بھی اور ادیب بھی۔ انہوںنے ڈاکٹر آصف جاہ کے والد گرامی محمد بشیر احمد کے بارے میں ایک روحانی بات کہ انہیں خواب میں کوئی شے غائب سے ظاہر ہو کر انہیں حیران کن رفعتوں کی جانب لے جاتی تھی۔وقت نے ثابت کیا کہ یہ ان کے صاحب خیر بیٹے آصف جاہ کے بارے میں بشارت تھی۔ اوریا مقبول جان شہادت دیتے ہیں کہ خدا نے ڈاکٹر آصف محمود جاہ کو بے پایاں ہمت اور جذبوں سے نوازا ہے۔