اسحاق ڈار کیخلاف اثاثہ جات ریفرنس، واجد ضیاء کا بیان قلمبند نہ ہوسکا
اسلام آباد: (ملت آن لائن) پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء اسحاق ڈار کیخلاف اثاثہ جات ریفرنس میں بطور گواہ احتساب عدالت میں پیش ہوگئے، اصل ریکارڈ دستیاب نہ ہونے پر واجد ضیا کا بیان قلمبند نہ ہو سکا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کیخلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کی۔ عدالت کو بتایا گیا کہ تفتیشی افسر علالت کے باعث پیش نہیں ہوسکتے، جس پرفاضل جج نے ناراضگی کا اظہارکیا۔ عدالتی استفسار پر واجد ضیاء نے بتایا کہ تمام اصل ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا تھا، قانونی معاونت سے متعلق کچھ ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع نہیں کروایا، بیرون ممالک کیساتھ قانونی خط و کتابت کے حوالے سے ریکارڈ والیم 10 میں ہے جو جمع نہیں کرایا گیا۔ پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ اسحاق ڈار سے متعلق ریکارڈ والیم 1 اور 9 اے میں ہے، عدالت فیصلہ کرے کہ تمام والیم منگوانا ہے یا صرف اسحاق ڈار سے متعلق ریکارڈ منگوانا ہے۔ فاضل جج نے کہا کہ ریکارڈ کے حصول کے لئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا تھا، دوبارہ یاد دہانی کروا دیتے ہیں۔ عدالت نے اصل ریکارڈ نہ ہونے پر واجد ضیاء کا بیان ریکارڈ کرنا موخر کرتے ہوئے سماعت 12 فروری تک ملتوی کر دی۔ خیال رہے احتساب عدالت کے روبرو گواہان کے بیانات ضابطہ فوجداری کی دفعہ 512 کے تحت قلمبند کئے جا رہے ہیں۔ نیب نے اسحاق ڈار کیخلاف مجموعی طور پر 28 گواہوں کی فہرست احتساب عدالت میں جمع کرائی تاہم بعد میں ایس ای سی پی افسر سلمان سعید اور سدرہ منصور کو بھی بطور گواہ پیش کرنے کی استدعا کی گئی جو عدالت نے منظور کر لی۔ اسحاق ڈار کے خلاف اب تک 26 گواہوں کے بیانات قلمبند کئے جا چکے ہیں جبکہ عدالت اسحاق ڈار کو مسلسل عدم حاضری پر اشتہاری قرار دے چکی ہے۔
سابق وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت کے دوران پاناما اسکینڈل کی تحقیقات کے لیے قائم ہونے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء احتساب عدالت میں بطور گواہ پیش ہوئے تاہم اصل ریکارڈ موجود نہ ہونے کی وجہ سے ان کا بیان ریکارڈ نہ ہوسکا۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر سابق وزیر خزانہ کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ 31 جنوری کو ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران احتساب عدالت نے جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کو اسحاق ڈار کے خلاف بطور گواہ طلب کیا تھا اثاثہ جات ریفرنس: پاناما جے آئی ٹی کے سربراہ 8 فروری کو اسحاق ڈار کے خلاف بطور گواہ طلب سماعت کے آغاز پر جج محمد بشیر نے واجد ضیاء سے استفسار کیا، ‘آپ کے پاس جے آئی ٹی رپورٹ نہیں ہے؟ واجد ضیاء نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ‘جے آئی ٹی رپورٹ کا اصل ریکارڈ موجود نہیں، تمام ریکارڈ سپریم کورٹ میں جمع کرا دیا تھا’۔
ساتھ ہی ان کا کہنا تھا، ‘میرے پاس صرف کاپی ہے’۔
جس پر احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیئے کہ ‘اصل ریکارڈ کے حصول کے لیے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھا گیا تھا، دوبارہ یاددہانی کا خط بھجوا دیتے ہیں’۔ ساتھ ہی معزز جج نے کہا کہ واجد ضیاء کا بیان 12 فروری کو ریکارڈ کر لیں گے۔ جس کے بعد واجد ضیاء احتساب عدالت سے روانہ ہوگئے۔
کیس کا پس منظر
سپریم کورٹ کے 28 جولائی کے پاناما کیس فیصلے کی روشنی میں نیب نے وزیرخزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا ریفرنس دائر کیا ہے۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن کے مطابق اسحاق ڈار اور ان کے اہل خانہ کے 831 ملین روپے کے اثاثے ہیں جو مختصر مدت میں 91 گنا بڑھے۔
اثاثہ جات ریفرنس: اسحاق ڈار مسلسل غیرحاضری پر اشتہاری قرار
گذشتہ برس 27 ستمبر کو احتساب عدالت نے آمدن سے زائد اثاثوں کے نیب ریفرنس میں وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر فرد جرم عائد کی تھی تاہم اسحاق ڈار نے صحت جرم سے انکار کردیا تھا۔
وزیر خزانہ اسحاق ڈار 7 مرتبہ احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوچکے ہیں۔
تاہم بعدازاں مسلسل غیر حاضری پر احتساب عدالت نے 11 دسمبر 2017 کو اسحاق ڈار کو اشتہاری ملزم قرار دے دیا تھا۔ سابق وزیرخزانہ اِن دنوں علاج کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں۔