اسلام آباد(ملت آن لائن) روزنامہ ’’جنگ‘‘ کے رپورٹر احمد نورانی نےجے آئی ٹی رپورٹ کے حوالے سے قارئین سے معافی مانگ لی۔ تفصیلات کے مطابق احمد نوارنی نے آج کی رپورٹ میں کہا ہے کہ’’ سب سے پہلے مجھے اس اعتراف سے شروعات کرنے دیں کہ پیر کا روز میرے لئے بہت شرمندگی کا دن تھا کیونکہ میں نے جو رپورٹ کیا وہ غلط ثابت ہوا۔بطور پیشہ ور صحافی میں اچھی طرح سمجھتا ہوں کہ اس سے میرے قارئین کو دکھ پہنچا اور ساتھ ہی ساتھ میری ساکھ بھی مجروح ہوئی ، مزید یہ کہ اخبار کی شہرت کو بھی نقصان پہنچا، جس کے پاس ویسے منفرد خبروں اور سب سے پہلے خبر دینے کی طویل فہرست موجود ہے۔
میں اپنے قارئین، اپنے ساتھیوں اور اپنی انتظامیہ سے معذرت خواہ ہوں۔ ذرائع سے حاصل معلومات کی بنیاد پر میں نے پیر کو دی نیوز اور جنگ میں یہ خبر دی کی کہ پاناما پر جے آئی ٹی نے فاضل عدالت کے 13 سوالات کے حوالے سے اپنے اخذ کردہ نتائج میں وزیراعظم کو کسی غلط کام کا ذمہ دار نہیں ٹہرایا ہے اور جے آئی ٹی نے شریف خاندان کے منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکام رہنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ حقیقت کہ شریف خاندان منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکام رہا فاضل عدالت کے سامنے پیش کی گئی ہے، اگرچہ جے آئی ٹی کے بنیادی اخذ کردہ نتائج کا حصہ ہے لیکن واضح طور پر میری خبر کا سب سے اہم اور خبریت رکھنے والا حصہ کہ ’’وزیراعظم نواز شریف کسی غلط کام کے ذمہ دار قرار نہیں دیے گئے‘‘مکمل طور پر غلط ثابت ہوا۔ اس کے بجائے جے آئی ٹی کی رپورٹ میں وزیراعظم نواز شریف کو مختلف مبینہ غلط کام کرنے پر ہدف بنایا گیا ہے۔خبر فائل کرنے سے قبل میں نے معلومات کو دوبارہ جانچنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن میری معلومات اور میرے ذرائع دونوں غلط ثابت ہوئے۔ میرا ابتدا ہی سے پاناما کیس اور جے آئی ٹی سے بہت قریبی تعلق رہا ہے اور دستاویزی شواہد کی بنیاد پر میں نے بہت سی خصوصی خبریں دی ہیں جو درست ثابت ہوئیں۔ جس لمحے جے آئی ٹی کی رپورٹ کے اخذ کردہ نتائج عام ہوئے تو میرے اور جنگ گروپ کے خلاف خاص طور پر سوشل میڈیا پر ہماری کوششوں کو نظرانداز کرتے ہوئے تذلیل کرنے کی مہم شروع کر دی گئی۔مجھ پر وزیراعظم اور ان کے اہل خانہ کو خوش کرنے کے لئے دانستہ جھوٹی خبر چلانے کا الزام لگایا گیا اور یہ حقیقت نظرانداز کردی گئی کہ میں نے یہ واضح طورپر لکھا تھا کہ شریف خاندان منی ٹریل ثابت کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہ کہنا مضحکہ خیز ہے کہ ایسی کوئی خبر جو چند گھنٹوں میں غلط ثابت ہو جائے گی وہ محض شریف خاندان کو سپورٹ کرنے کے لئے بنائی گئی ہوگی۔میں اپنی صحافتی زندگی میں ان شرمندہ کرنے والے لمحات سے سکھوں گا اور مزید محنت کر کے اپنے اخبار اور اپنے قارئین کا اعتماد حاصل کرنے کے لئے پرعزم ہوں۔ میں خوش قسمت ہوں کہ دی نیوز انوسٹی گیشن سیل سے وابستہ تفتیشی صحافیوں کی معزز ٹیم کا ایک رکن ہوں جس نے ہمیشہ منفرد خبریں سب سے پہلے جاری کرنے میں اور طاقتور ایکٹرز اور مختلف حکومتوں کے خلاف بڑے اسکینڈلز کا انکشاف کرنے میں سبقت حاصل کی ہے۔فرح حمید ڈوگر کے مارکس اسکینڈل سے کے پی کے میں آخری فوجی حکمران کی طرف سے فوج کی زمین (پاک فوج کے شہدا کے خاندانوں کے مختص)کو سیاستدانوں کو مختص کرنے، کراچی میں زمینوں کی غیرقانونی الاٹمنٹ اسکینڈل، تمام پارلیمنٹرینز کی ٹیکس رپورٹ، این آئی سی ایل اسکینڈل، جنرل پرویز مشرف کے اربوں روپے کا انکشاف، پیپلز پارٹی کی آخری حکومت کے متعدد اسکینڈلز، سب سے اہم پاناما اسکینڈل جو موجودہ حکمرانوں کے خلاف تھا،عمران خان کی آف شور کمپنی وغیرہ وغیرہ تک۔ یہ خبریں تمام سیاسی جماعتوں اور طاقت کے مراکز کے متعلق تھیں۔ دی نیوز انوسٹی گیشن سیل کے رپورٹ کردہ تقریبا تمام اسکینڈلز نہ صرف درست ثابت ہوئے بلکہ نظام میں بڑی تبدیلی کا باعث بھی بنے۔ یہاں تک کہ پیر کو میری خبر غلط ثابت ہوئی لیکن منفرد خبریں ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی کی جانب سے ’’ایس ای سی پی ریکارڈ ٹیمپرنگ ثابت‘‘ اور عمر چیمہ کی خبر ’’بینیفشل اونر شپ آف آف شور کمپنیز بائے مریم نواز‘‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ کے مطابق درست ثابت ہوئیں۔گزشتہ برس اپریل میں پاناما پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد میں پہلا شخص تھا جس نے سرکاری طور پر لینڈ رجسٹری کی دستاویزات حاصل کی تھیں اور 12 اپریل کو خبر جاری کی تھی کہ شریف خاندان کے لندن کے فلیٹس کی ملکیت 90 کی دہائی کے اوائل سے اب تک تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ میں نے مکمل مالیاتی تفصیلات کے ساتھ اور سرکاری دستاویزات کا حوالہ دیتے ہوئے اس بہت بڑے فرق کے بارے میں رپورٹ کیا تھا جو جنرل پرویز مشرف کی ریٹائرمنٹ کے بعد کی آمدنی اور دبئی اور لندن میں ان کی جانب سے فلیٹس کی خریداری پر خرچ کی جانے والی رقم میں تھا۔میں نے جہانگیر خان ترین کی آف شور کمپنی کے بارے میں خصوصی خبر جاری کی تھی جس کا انہوں نے کبھی اعلان نہیں کیا تھا۔ میں نے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کی غیر اعلانیہ آف شور کمپنی کو بے نقاب کیا تھا۔ شریف خاندان کی جانب سے پاناما کیس میں جمع کرائی گئی دستاویزات دیکھنے کے بعد میں نے وہ 13 بنیادی سوالات رپورٹ کیے تھے جن کا شریف خاندان 11 نومبر 2016 کو جواب دینے میں ناکام رہا تھا۔20 اپریل کے فیصلے سے قبل پاناما کیس میں عدالتی عمل کے حوالے سے کوئی ایک بھی اہم اسٹوری نہیں تھی۔ تاہم جے آئی ٹی کی تشکیل کے بعد جب جے آئی ٹی کی تشکیل اور کام کرنے کے طریقے کے بارے میں سنجیدہ سوالات اٹھائے گئے تو میں نے محض بیان کردہ حقائق اور سرکاری دستاویزات کی بنیاد پر خبریں فائل کیں۔ میں نے خبر فائل کی تھی کہ جے آئی ٹی کی شکایت میں 120 میں سے 110 صفحات ٹاک شوز، پریس اور سوشل میڈیا کی غیرضروری میڈیا مانیٹرنگ پر مشتمل ہیں۔میں نے رپورٹ کیا تھا کہ جے آئی ٹی 5 مئی کو تشکیل دی گئی لیکن ٹاک شوز کی میڈیا مانیٹرنگ 20 اپریل سے شروع ہوئی جب جے آئی ٹی نے جنم بھی نہیں لیا تھا۔ میں نے دستاویزات کی بنیاد پر یہ نشاندہی کی کہ جے آئی ٹی کی رپورٹس جے آئی ٹی کے ارکان کی جانب سے تحریر نہیں کی جا رہی ہیں کیونکہ انہوں نے ان رپورٹس کو پڑھا بھی نہیں ہے۔ ان خبروں پر اعتراضات اٹھائے گئے لیکن کسی ایک حقیقت کی بھی کبھی تردید نہیں کی گئی۔ آج اس مشکل وقت میں، میں اپنے ساتھیوں اور دوستوں کی حمایت پر شکرگزار ہوں اور عزم کرتا ہوں کہ میں اپنے قارئین کا اعتماد پھر جیتنے کے لئے اپنی بہترین کوشش کروں گا۔ انسان غلطی کرتے ہیں اور میں اس سے مستثنٰی نہیں ہوں۔