اسلام آباد: (ملت+آئی این پی)سپریم کورٹ میں پانامہ کیس کی سماعت کے دوران جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے کہ استثنیٰ نہیں آرٹیکل66کے تحت استحقاق مانگاگیا، آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ،66کے تحت استحقاق الگ چیزیں ہیں،جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ استثنیٰ اور استحقاق میں فرق ہے جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے استثنیٰ نہیں مانگا ۔جمعہ کو سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس گلزار احمد، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل پانچ رکنی بینچ نے امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق، چیئرمین تحریک انصاف عمران خان، سربراہ عوامی مسلم لیگ شیخ رشید احمد اور طارق اسد ایڈووکیٹ کی جانب سے وزیراعظم نوازشریف اور ان کے خاندان کے افراد کی آف شور کمپنیوں کی تحقیقات کے لئے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت شروع ہوئی تو جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہاکہ وزیراعظم صادق اور امین نہیں رہے،وزیراعظم نے لندن کے اثاثے چھپائے،وزیراعظم کی اسمبلی تقریر بطورشواہد استعمال ہوسکتی ہے،عدالت کو ڈیکلریشن دینے کا اختیار ہے،وزیراعظم نے فلیٹس کی ملکیت سے انکار نہیں کیا،وزیراعظم نے بطور ایم این اے اپنے حلف کی خلاف ورزی کی،وزیراعظم نے تقریر میں فلیٹس کی ملکیت کوتسلیم کیا،اتفاق فاؤنڈری 1980میں خسارے میں تھی،صرف تین سال میں خسارہ ختم کرکے 60کروڑ منافع میں چلیگئی،1985میں اتفاق فاؤنڈری کا دائرہ کئی کمپنیوں تک پہنچ گیا،دبئی میں گلف اسٹیل مل بنائی گئی لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ رقم کہاں سے آئی،وزیراعظم نے تقریر میں کہا کہ فلیٹس1993سے1996میں خریدے گئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ یہ بات کہاں مانی گئی،اگر یہ ہوتا تو ہم اتنے دنوں سے یہ کیس کیوں سن رہے ہیں۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ آپ کا کیس تحریک انصاف سے بہت مختلف ہے۔توفیق آصف نے کہاکہ وزیراعظم نے کہا کہ یہ وہ وسائل جن سے لندن فلیٹس خریدے گئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ خریدنے کی حد تک اعتراف ضرورکیا گیا ہے۔سوال یہ ہے فلیٹس کب،کس نے اور کیسے خریدے؟،وزیراعظم نے فلیٹس کی ملکیت کو تسلیم نہیں کیا،حسین نواز نے فلیٹس کی ملکیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نے ہرجگہ اپنے والد کا ذکر کیا ہے۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ سوال یہ بھی ہے فلیٹس2006سے پہلے خریدے گئے یا نہیں؟،سوال یہ بھی ہے وزیراعظم کا فلیٹس سے کوئی تعلق ہے یا نہیں؟،توفیق آصف کی جانب سے ظفر علی شاہ کیس کا حوالہ دیا گیا۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ دیکھنا ہوگا نوازشریف کیس میں فریق تھے یا نہیں؟۔توفیق آصف نے کہاکہ کیس میں خالد انور نوازشریف کے وکیل تھے۔جسٹس آصف سعیدکھوسہ نے کہا کہ فائل منگوالی ہے،واضح ہوجائے گا خالد انور کیس کے وکیل تھے۔جسٹس شیخ عظمت سعید نے کہا کہ فیصلے میں کہیں نہیں لکھا خالد انور نوازشریف کے وکیل تھے،جن باتوں کا آپ حوالہ دے رہے ہیں وہ دلائل ہیں عدالتی رائے نہیں ۔توفیق صاحب کچھ خدا کا خوف کریں۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہاکہ نعیم بخاری نے التوفیق کیس کا حوالہ دیا تھا،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کے الفاظ یہ کہ ’’یہ ہیں وہ ذرائع‘‘ ازخودملکیت تسلیم کرتا ہے،مقدمے میں بارثبوت شریف خاندان پر ہے،ثبوت کے طور پر نوازشریف نے تین تقاریر کیں،عدالت میں نوازشریف نے استثنیٰ مانگا ہے۔ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ استثنیٰ نہیں ۔آرٹیکل66کے تحت استحقاق مانگاگیا،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر پر آرٹیکل66لاگو نہیں ہوتا۔جسٹس اعجاز افضل خان نے کہا کہ استثنیٰ اور استحقاق میں فرق ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ نے خالد انور کے وکیل ہونے کی بات کی تھی،ریکارڈ کے مطابق خالد انور نوازشریف کے وکیل نہیں تھے،جس پر توفیق آصف نے کہا کہ ظفر علی شاہ کیس کے حوالے سے اپنے دلائل واپس لیتا ہوں۔جسٹس گلزار احمد نے کہاکہ کیس کو اتنی غیرسنجیدگی سے نہیں لینا چاہیے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آپ کے موکل سراج الحق انتہائی قابل احترام ہیں،وکیل کی غلطیوں کو موکل پر نہیں ڈالناچاہیے،نوازشریف اس کیس میں فریق نمبرچارتھے۔توفیق آصف نے کہا کہ تھوڑا غور سے دیکھیں۔ ان کے وکیل بھی نکل آئیں گے،میری بات ثابت ہوئی تو دلائل واپس لینے کا فیصلہ واپس لے لوں گا،توفیق آصف کی بات پر عدالت میں قہقے لگے ،توفیق آصف نے کہا کہ میں نے اتنی بھی غیرسنجیدہ بات نہیں کی۔ میرا زیادہ انحصار وزیراعظم کی تقریر پر ہے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آرٹیکل248کے تحت استثنیٰ،66کے تحت استحقاق الگ چیزیں ہیں۔جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ وزیراعظم نوازشریف نے استثنیٰ نہیں مانگا،توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر پر اسمبلی معمول کی کارروائی نہیں تھی،وزیراعظم نے اسمبلی میں کوئی پالیسی بیان نہیں دیا،جو استحقاق بنتا ہو،وزیراعظم نے اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے بات کی تھی۔توفیق آصف نے کہا کہ وزیراعظم نے تقریر عوامی مفاد میں نہیں کی،وزیراعظم نے سانحہ کوئٹہ پر کبھی اسمبلی میں بات نہیں کی،جسٹس اعجاز الاحسن نے کہاکہ کیا وزیراعظم کی تقریر ایجنڈے کا حصہ تھی،توفیق آصف نے کہا کہ تقریر کا اعلان تو کیا گیا تھا لیکن یہ معمول کی کارروائی نہیں تھی۔تو فیق آصف نے کہاکہ اپنی ذات کے حوالے سیتقریر کو استحقاق حاصل نہیں ہوتا،ٹی وی انٹرویو کے مطابق وزیراعظم1997میں کاروبار سے الگ ہوئے،جعلی ڈگری اور دہری شہریت پر ارکان اسمبلی نااہل ہوئے۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ نااہلی کیلئے ٹھوس شواہد درکار ہیں یا اعتراف؟،توفیق آصف نے کہا کہ ارکان اسمبلی اور وزیراعظم کیلئے پیمانہ الگ نہیں ہوسکتا۔جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ پہلے آپ شواہد کی بات کر رہے تھے اب طرز عمل پر آگئے ہیں،توفیق آصف نے کہاکہ وزیراعظم کی تقریر بطورثبوت استعمال ہوسکتی ہے،عدالت اسمبلی سے وزیراعظم کی تقریر کا ریکارڈ طلب کرے۔سماعت (پیر )تک ملتوی کردی گئی ۔۔۔۔(خ م)