بسم اللہ
وزیر اعظم کا یہ بیان ایک مدبر سیاستدان، ایک اسٹیسمین اور ایک میچیور حکمران کے بیان کے مترادف ہے، دنیا کو سنانے کے لئے اس سے زیادہ خوش گفتاری نہیں کی جا سکتی کہ پاکستان کے ہتھیار امن کے لئے ہیں۔
اس وقت جب ساری دنیا میں پاکستان کو دہشت گردی کی نرسری کے طور پیش کیا جارہا ہے ا ور آنے والا امریکی صدر ٹرمپ پاکستان کوسب سے زیادہ خطر ناک ملک قرار دے چکا ہے تو یہ بیانیہ بہت خوش کن اور دشمنوں کی زبان بند کرنے کئے کافی ہے کہ پاکستان ایک پر امن ملک ہے۔وزیر اعظم کو یہی بیان دینا چاہئے تھا۔
مگر زمینی حقائق کچھ اور ہیں، دہشت گردی اور جارحیت کی نرسری اور جنم بھومی تو اصل میں بھارت ہے جو امن کی زبان نہیں سمجھتا ، اس نے قیام پاکستان کے فوری بعد مسلم ریاستوں حید رآبادا ور جوناگڑھ کو فوجی جارحیت سے ہڑپ کر لیا اور کشمیر پر بھی فوجی جارحیت سے قبضہ جما لیا، پینسٹھ میں پاکستان کو پھر جارحیت کا نشانہ بنایا اور اکہتر میں اس نے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان کو دو لخت کر دیا ا، چوراسی میں چوروں کی طرح سیاچین پر قبضہ جما لیا ۔ اور اب وہ کئی ماہ سے کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری کو میدان جنگ میں تبدیل کر چکا ہے۔
ادھر ہم ہیں کہ امن کی مالا جپ رہے ہیں، یہ بھی اچھا رویہ ہے کہ ہم جارحیت پسند نہیں لیکن جب ملکی سلامتی اور قومی آزادی کو حقیقی خطرات درپیش ہوں تو ان کا دفاع کیسے کرنا ہے، کس نے کرنا ہے، ہم نے بھارت کو بیانات کی گولہ باری سے ہراساں کرنے کی پوری کوشش کر دیکھی مگر ا س کا کوئی اثر اس پر نہیں ہوا، وہ مسلسل جارحیت پہ آمادہ ہے ۔ اسوقت جب میں یہ سطور لکھنے بیٹھا ہوں تو بھارتی فوج نے ایک مسافر بس پر فائر کر کے اس میں سوار سویلین مسافروں کو بے دردی سے شہید کر دیا ہے، کوئی کہتا ہے کہ ا س نے راکٹ مارا ہے، کوئی کہتا ہے، توپوں سے نشانہ بنایا ہے، کچھ بھی ہو یہ ننگی جارحیت ہے اور زندہ ، باحمیت اور بہادر قومیں اسے اعلان جنگ تصور کرتی ہیں، مگر ہم نجانے کس کھال کے بنے ہوئے ہیں کہ ہم پہ سردی گرمی کا کوئی اثر نہیں ہے، ہم نہ ورکنگ باؤنڈری پر اپنے دیہات کو پاکستان کے علاقے تصور کرتے ہیں ، اگر انہیں نہیں کرتے تو آزاد کشمیر کے دیہات کو اپنے علاقے کیوں مانیں گے ، کوئی دن آتا ہے کہ بھارت مظفر آباد پرچراکٹ پھینک دے گا اورپھر بھی ہم نے بے حسی کا مظاہرہ کیا تو وہ سیالکوٹ کو نشانہ بنا دے گا۔اور لاہور ، قصور بھی بھارتی توپوں یا راکٹوں سے زیادہ دور نہیں ہیں، میں کسی پر نکتہ چینی نہیں کرتا مگر ہم ایٹمی اسلحے ا ور میزائلوں سے مسلح ہیں تو یہ اسلحہ کب ہماری سلامتی کو یقینی بنانے کے لئے کام آئے گا۔یا نہیں آئے گاا ور کبھی نہیں آئے گا۔ اڑتالیس کی جنگ میں کیا ہوا ، ہم نے نہیں دیکھا، مگر اکہتر میں جو ہوا ، ہم سب نے دیکھا، مشرقی پاکستان کو بھارتی فوج ہڑپ کئے چلے جا رہی تھی اور ہم مغربی سرحد پر پوری فوج کو تماش بین بنائے بیٹھے رہے۔ سیالکوٹ ،لاہور اور گوجرانوالہ کے فوجی کمانڈروں یا جی ا یچ کیو نے بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لئے کیا کیا، میجر شبیر شریف نشان حیدر اور کرنل غلام حسین ہلال جرات کی قربانیاں اپنی جگہ بے مثال تھیں مگر ایک رات کے بعد پیش قدمی روک کیوں دی گئی۔ مغربی پاکستان کسی لحاظ سے مشرقی پاکستان سے مماثلت نہیں رکھتا تھا اور آج تو ہمارا پاکستان ہے ہی اسی مغربی پاکستان پر محیط، اب تو کہیں سے کمک نہیں آئے گی، جو کرنا ہے ، ہم نے اسی پاکستان کے لئے خود کرنا ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا جو ہمیں کرنا چاہئے ، وہ کر رہے ہیں اور اگر کر رہے ہیں تو بھارت روز ہماری لاشیں کیوں گرا رہا ہے ، کیا ہم کمزور ہیں، کیا ہم بھارت سے مدافعت کے قابل بھی نہیں یا ہم نے بھارتی غلامی کو قبول کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے۔نہیں کیا توا پنی آزادی اور سلامتی کے تحفظ کے لئے ہماری سوچ کیا ہے، ہمارا بیانیہ کیا ہے، ہماری منصوبہ بندی کیا ہے، کیا صرف ہم لاشوں کے نوحہ خواں ہیں، کیا ہم مرثئے پڑھنے کے لئے رہ گئے ہیں۔
چلئے فرض کر لیتے ہیں کہ ہمیں پر امن رہنا ہے ا ور ہم بھارت سے جنگ نہیں کر سکتے تو کیا یہ بھی نہیں ہو سکتا کہ ہم عالمی اداروں میں دا دفریاد ہی کر سکیں۔ کشمیر کا مسئلہ اگر پچاس برس قبل سیکورٹی کونسل کے ایجنڈے پر تھا تو کیا ہم سلامتی کونسل سے بھی رجوع نہیں کر سکتے کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے جو قردادیں منظور کر رکھی ہیں، ہم ان پر عمل درآمد کا مطالبہ کیوں نہیں کرتے، جولائی1999 میں وزیرا عظم نواز شریف امریکی چھٹی کے روز صدربل کلنٹن سے ملے تھے تو جو اعلان جاری کیا گیا اس میں کلنٹن نے وعدہ کیا کہ وہ ذاتی حیثیت میں مسلہ کشمیر کے حل کے لئے کوشش کرے گا، کیاآج ہمارے وزیر اعظم اسی بل کلنٹن یا ا سکی بیوی ہیلری کو یہ وعدہ نہیں یاد دلا سکتے کہ اسے کب پورا کرو گے۔
دنیا میں انسانی حقوق کے بھی ادارے ہیں، کشمیر میں عوام کے حقوق پامال ہو رہے ہیں ، خواتین کی اجتماعی عصمت دری کی جاتی ہے، بچوں کی آنکھوں کا نشانہ لے کر انہیں اندھا کیا جا رہا ہے، کیا یہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہیں، اگر کشمیریوں کوہم انسان نہیں سمجھتے اور وہ محض حیوان کے درجے پر فائز ہیں تو بھی دنیا میں حیوانوں کے حقوق کے لئے بھی کئی ادارے کوشاں ہیں، ہم ان سے بھی رجوع نہیں کرتے۔
پاکستان میں آج کشمیری نژاد افراد کی حکومت میں اکثریت ہے، کیا ان کا خو ن نہیں کھولتا کہ بھارتی فوج کس جبر سے ان کے بھائی بندوں کو کچل رہی ہے۔
ملک میں جمہوریت پر آنچ آنے کا دودر دور کا بھی اندیشہ نہ ہو تو بھی خورشید شاہ ا ور اچکزئی بھرپور طور پر آواز اٹھاتے ہیں، مگر کشمیرا ور پاکستان کو حقیقی خطرات لاحق ہو ں اور دن دیہاڑے پاکستانیوں اور کشمیریوں کو شہید کیا جارہا ہے تو اس پر بھہی ا نہیں آواز بلند کرنی چاہئے، دانیال عزیز ہر مسئلے پر وزیر اعظم اور ان کے بچوں کی مدافعت میں بولتے ہیں مگر ان کے علاقے نارووال اور شکر گڑھ کے لوگ ا ور ان کے بچے بھارتی توپوں کی زد میں ہیں، دانیال عزیز کی آواز ان کے حق میں بھی اٹھنی چاہئیے۔
میں کیا مشورے دوں ، کس کو مشورے دوں ، بس ایک عالم بے بسی میں اپنے انجام کاانتظار کرنے کے لئے مجبور ہوں۔
وزیرا عظم ٹھیک کہتے ہیں کہ ہمارا اسلحہ امن کیلئے ہے، جی ہاں ، یہ صرف نمائش میں رکھنے کے لئے ہے۔ہم نے مغلیہ دور کی بندوقیں، تلواریں ا ورخنجر اپنے ڈارئینگ روموں میں سجا رکھے ہیں۔ مغلیہ دور کے قلعے کھابوں کی محفلیں سجانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں، مغلوں کا زوال اور انجام ہمارے سامنے ہے، ہمارا نجام اور زوال کون دیکھے گا،کون لکھے گا۔