اسپیکر کا وقارگورنر سرور کی نظر میں…اسد اللہ غالب
میرا سوال بہت لوڈڈ تھا۔ میں نے پوچھا تھا کہ آپ نے برطانیہ میں طویل عرصے تک پارلیمانی نظام میں سر گرم حصہ لیا ہے۔ میں آپ کے تجربات سے مستفید ہونے کے لئے تین سوالات کرنا چاہتا ہوں اور پہلا یہ ہے کہ برطانیہ میں ہاؤس اسپیکر کا کردار کیا ہوتا ہے۔ میں داددیتا ہوں گورنر سرور کی ذہانت اور سیاسی مصلحت پسندی کو کہ انہوں نے حالیہ دنوں میں اسپیکر پنجاب ا سمبلی چودھری پرویز الہی کے ریمارکس کا ذکر تک نہ کیا اور اپنے جواب کو میرے سوال تک محدود رکھا ۔ انہوں نے بتایا کہ لندن میں ہاؤ س اسپیکر ایک تو ضروری نہیں کہ اکثریتی پارٹی کا ہی نمائندہ ہو، بسا اوقات حکومت کی مخالف پارٹی سے اسپیکر منتخب کر لیا جاتا ہے۔یعنی وہاں پاکستان کی طرح ہر پارٹی کے لئے لازم نہیں کہ وہ اپنے ہی نامزد امیدوار کو ووٹ دیں۔ دوسرا نکتہ یہ ذہن میں رکھ لیں کہ اسپیکر کو ہاؤس پر مکمل کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔ کسی کی مجال نہیں کہ اس کے حکم کی سرتابی کرسکے۔ اسپیکر کھڑا ہو جائے تو کوئی شخص اپنی سیٹ ہر کھڑا نہیں ہوسکتا۔ اسپیکر کسی کو تقریر سے منع کردے تو ایوان کے رکن کو وہیں اپنی تقریر کا سلسلہ منقطع کرنا پڑتا ہے۔ کوئی شخص اسپیکر کے حکم کی سرتابی کرے تو اسپیکر اسے ایوان سے باہر نکلنے کا حکم دیتا ہے اورا س حکم پر عمل لازمی ہے۔ اسپیکر کو ایوان کا کسٹوڈین سمجھا جاتا ہے۔وہ بول رہا ہو تو کوئی رکن اس وقت بول نہیں سکتا۔ اسپیکر کا یہ وقار اور اختیار ہی ایوان کی کاروائی کو احسن اور متوازن طریقے سے چلانے میں مدد دیتا ہے۔ ہماری طرح وہاں ایوان مچھلی منڈی نہیں بنتا۔ تمام ا رکان سنجیدگی سے بحث کرتے ہیں اور ملکی ا ورقومی مفاد کے مطابق نکات اٹھاتے ہیں۔ گورنر نے کہا کہ قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر تما م مشکلات کے باوجود ایواں میں اپوزیشن ارکان کو اکاموڈیٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں، اسی طرح پنجاب اسمبلی کے اسپیکر چودھری پرویز الہی بھی ایک مجنھے ہوئے اور زیرک سیاست دان ہیں ، وہ اسی اسمبلی کے اسپیکر رہ چکے ہیں اور مشکل حالات کا مقابلہ کرنا ان کی فطرت اور تربیت کا حصہ ہے۔
گورنر سرور کی یہ باتیں سن کر اچنبھا ہوا ور سبھی حاضرین ان کی ستائش کئے بغیر نہ رہ سکے، میں یہ بتاتا چلوں کی گورنر سرور کسی نجی محفل میں نہیں بیٹھے تھے۔ یہ دانشوروں کا جتماع تھا، اس میں پی ایچ دی تھے، ایم فل تھے۔ درجنوں کتابوں کے مصنف تھے،سینیئر تریں کالم نگار تھے۔ گورنر کی محفل کا فرق یہ تھا کہ یہاں کوئی فوٹو گرافر ان کامیڈیا ایڈوائزر نہیں تھا بلکہ شعلہ صحافت شورش کاشمیری کا صاحبزادہ مشہودشورش ان کے میڈیا معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ ان کے ساتھ ڈی جی پی آر کی ایک منجھی ہوئی اورتجربہ کار ٹیم ہے۔ یہاں اوچھے پن کا مظاہرہ کرنے کی کسی میں جرات نہیں تھی۔ تقریب کے آغاز میں بسم اللہ کے بعد میں نے حاضرین سے کہا تھا کہ وہ گورنر کے منصب اور اپنے وقار کوملحوظ رکھتے ہوئے موبائل ٹیلی فون بند کر دیں۔ تصویریں اتارنے اور گفتگو ٹیپ کرنے سے گریز کریں، اس محفل کی ساری کاروائی بیک گراؤنڈ بریفنگ کا درجہ رکھتی ہے ارو رہ گیا تصویروں کا شوق تو گورنر ہاؤس کا میڈیآافس تمام تصاویر شرکائے اجلاس کو واٹس ایپ یاا ی میل کر دے گا۔یہی وجہ ہے کہ یہاں وہ بد مزگی دیکھنے میں نہیں آئی جو چند روز قبل ایک نجی محفل کی گفتگو سوشل میڈیا پر وائرل کرنے سے دیکھنے میں آئی اور جس سے حکمران پارٹی کو نقصان پہنچ سکتا تھا، شاید وزیر اعظم نے ذاتی طور پر مداخلت کرتے ہوئے ا س بد منزگی کے وائرس پر کنٹرول پا لیا۔
میں نے سوشل میڈیا پر مبینہ ویڈیو دیکھ کر چودھری پرویز الہی کے میڈیا ایڈوائزر چودھری اقبال کو فون کیا اور چودھری صاحب سے ملاقات کا انتظام کرنے کی درخوست کی تھی مگر اقبال صاحب نے کہا کہ وہ ملاقاتوں کااہتمام نہیں کراتے،۔ اس کے لئے میں پرویز صاحب کے گھر یا دفتر کے نمبر پر فون کر لوں۔ان ٹیل فونوں پر تو پچھلے اٹھارہ برسوں سے رابطہ کررہا ہوں مگر میرا پیغام پرویز صاحب تک کبھی نہیں پہنچتا۔ اس طرح میں معلومات کے ایک اہم تریں سورس سے محروم ہو گیا ہوں۔
گورنر سرور سے میرا دوسرا سوال یہ تھا کہ برطانیہ میں ہاؤس کمیٹی سسٹم کیا ہے اور اس کی ا فادیت کس حد تک ہے۔کہنے لگے کہ ایوان میں ہر اشو پر کمیٹیاں تشکیل دی جاتی ہیں۔ اس کا ایک چیئر مین ہوتا ہے ۔ اس کا تعلق حکمران پارٹی سے ہوتا ہے۔ مزید چھ ارکان بھی حکمران پارٹی سے لئے جاتے ہیں اور پانچ ارکان کا تعلق اپوزیشن پارٹیوں سے ہوتا ہے۔ ان کمیٹیوں کی حیثیت محض مشاورتی ہوتی ہے۔ ان کی سفارشات یا فیصلوں پر عمل در آمد ضروری نہیں ہوتا۔
اگلا اورآخری سوال یہ تھا کہ برطانیہ میں بلدیاتی اداروں کا کردار کیا ہے۔ گورنر سرور نے بتایا کہ بشیر مان پہلے پاکستانی ا ور مسلمان کونسلر تھے جو گلاسگو سٹی کونسل کے رکن چنے گئے مگر برطانونی میڈیا نے آسمان سر پہ اٹھا لیا اور ان کی خبر پورے صفحے پر سیاہ حاشے میں لگائی مگر بشیر مان کے بعد ایک راستہ کھل گیا اور پھر ہر شہر میں کونسلر اور میئر تک پاکستانی بننے لگے۔ اب تولندن جیسے مرکزی اور اہم تریں شہر کا میئر پاکستانی نژاد ہے۔برطانوی بلدیاتی ادارے مقامی مسائل کو حل کرنے میں خود مختار ہیں۔یہ نظام، حکومت کے مرکزی کنٹرول کا خاتمہ کر دیتا ہے اور کسی شخص کو بھی گلی محلے۔ اسکول، سڑک، ہسپتال وغیرہ کے مسئلے پر لندن یا کسی بڑے شہر کے چکر نہیں کاٹنے پڑتے۔تمام مسائل کو مقامی سطح پر مشاور ت سے حل کر لیا جاتا ہے ۔
گورنر سرور نے اپنا چارج سنبھالاا ور مجھے فون پراس بارے اطلاع دی تو میں نے ایک ہی مشورہ دیا کہ وہ اپنے کام سے کام رکھیں، آئین کے دائرے میں رہیں اور ماضی کے تجربے کی تلخیوں سے بچنے کی کوشش کریں۔ اس محفل میں انہوں نے بتایا کہ وہ اس نصیحت پر عمل پیرا ہیں مگر سرور فاؤنڈیشن کے پلیٹ فارم سے سوشل اور چیریٹی کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں جس میں صاف پانی کی فراہمی کو اہمیت حاصل ہے تاکہ پیپاٹائٹس سے ہونے والی اموات کو کم کیا جا سکے ۔دوسری ترجیح یہ ہے کہ جیلوں میں جو قیدی سزا پوری کرنے کے باوجود چند ہزار کا جرمانہ ادا نہ کرنے کی وجہ سے مسلسل قید و بند کا شکار ہیں ،سرور فاؤنڈیشن ان کے جرمانے کی ساری رقم ادا کر کے انہیں جیلوں سے رہا کروائے گا۔انہوں نے بتایا کہ اگر وہ برطانیہ میں ہی رہتے تو ان کی ایک خواہش یہ تھی کہ وہ لوگوں کو سیاسی اداروں کے الیکشن میں حصہ لینے پر مائل کریں اور اس ضمن میں انہیں ضروری صلاح مشورہ دیں۔ میں نے کہا کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام کو بہتر، با مقصد اور مثبت بنانے کے لئے وہ یہاں بھی یہ کام کر سکتے ہیں اورا س ضمن میں قائداعظم کے ساتھی ملک برکت علی کے پوتے ڈاکٹر محمود شوکت بھی اپنے ا رادوں کاا ظہار کرتے رہتے ہیں، کیا ہی اچھا ہو کہ سرور فاؤنڈیشن انہیں اپنے ساتھ شامل کر لے۔ ان کے دا دا کی سات سو صفحات کی تقاریر جمع ہو چکی ہیں جبکہ آج لوگ ایک دوسرے پر جملے کستے ہیں اورایوان میں شو رو غل برپا ہو جاتا ہے۔ گورنر سرور نے ان سے فون نمبر لے لیا۔ ڈاکٹر محمود شوکت نے ایک اور تجویز دی کہ کم از کم سرکاری ٹی وی پر ایک گھنٹہ کے لئے سہی، ہیلتھ ٹی وی شروع کیا جائے۔ اس کی تجویز وہ صوبائی محکمہ صحت کو دے چکے ہیں ، گورنر سرور نے ان سے اس تجویز کی کاپی بھی مانگ لی ا ورا س میں یہ اضافہ کیا کہ وہ نجی چینلز سے بھی درخواست کر سکتے ہیں کہ ہیلٹھ پر کچھ وقت مخصوس کریں تاکہ لوگوں کو علاج معالجے کے بارے میں رہنمائی مل سکے، صاف پانی کے مسئلے پر ڈاکٹرآْصف محمود جاہ نے گورنر صاحب کو بتایا کہ ان کی تنظیم کسٹمز ہیلتھ کیئر تھر میں کنویں کھود رہی ہے اور اب تو گرین ہاؤس کی اسکیم بھی شروع کی گئی ہے۔ گورنر صاحب نے فی الفور کہا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر اپنے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ان سے الگ تفصیلی ملاقات کریں گے۔ میں نے ڈاکٹر نعمان ظفر کا تعارف کرایا کہ وہ سیکورٹی کے امور کے ایکسپرٹ ہیں اور سعودی عرب کو ایک پراجیکٹ بنا کر دے آئے ہیں۔ فوڈ سیکورٹی، واٹر سیکورٹی وغیرہ پر ان کے مشورے آپ کے لے مفید ثابت ہو سکتے ہیں، اسی طرح منظور احمد صاحب کے بارے میں بتایا کہ وہ چودھری رحمت علی ا ور جمال ا لدین افغانی کی طرح مستقبل کی نقشہ گری میں مستغرق رہتے ہیں اور ان دنوں اتحاد امت مسلمہ ان کامشن ہے۔ وزیر اعظم عمران خان یمن کے مسئلے پر ثالثی کرنا چاہتے ہیں مگر اس کے ساتھ امہ کو کئی دیگر مسائل درپیش ہیں جن پر منظورا حمد صاحب کام کر چکے ہیں۔ میں نے کہا کہ یہ سب لوگ جو آپ کے مہمان ہیں ایک کہکشاں کی مانند ہیں، ان کی کوئی سیاسی پارٹی نہیں صرف پاکستان کا مفاد ہر ایک کی ترجیح ہے۔میں نے گورنر صاحب کو یاد دلایا کہ جب تیس برس قبل آپ پہلی مرتبہ پاکستان تشریف لائے تھے تواسی گروپ نے آپ کو خوش آمدید کہا تھا،۔ اب بھی ضرورت پڑنے پر آپ کی مشاورت اور معاونت کے لئے بے لوث خدمات انجام دینے کے لئے یہ گروپ حاضر ہے۔